رسائی کے لنکس

اجتماعی ہلاکتیں جنگی جرائم کے زمرے میں آسکتی ہیں: اقوام متحدہ


’پتا چلتا ہے کہ اِن میں سے کچھ افراد کو موت کی سزائیں اُس وقت دی گئیں، جب اڈوں کا قبضہ چھوڑتے وقت باغی جنگجوؤں نے زیرِ حراست افراد کا ’قتلِ عام‘ کیا، جو ’جنیوا کنوینشنز ‘کی خلاف ورزی ہے‘: اقوامِ متحدہ کا دفتر برائے حقوقِ انسانی

اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کےدفتر کا کہنا ہےکہ شام میں مخالفین سے تعلق رکھنے والے مسلح گروہ، خصوصی طور پر القاعدہ سے وابستہ ایک انتہا پسند دھڑا ملک کے شمال میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے واقعات کا ذمہ دار ہے، جو واقعات جنگی جرائم کے زمرے میں آسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق، نَوی پلئی نے جمعرات کے روز کہا کہ گذشتہ دو ہفتوں سے موصول ہونے والی رپورٹوں میں ایسے واقعات کو اکٹھا کیا گیا ہے جِن میں ایسے شہریوں اور جنگجوؤں کی اجتماعی ہلاکتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو حلب، ادلب اور رقعہ کے شہروں میں ہونے والی لڑائی میں شریک نہیں تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ ہلاکتیں شام کےسخت گیر مخالفین گروپوں کی طرف سے کی گئی ہیں، خصوصی طور پر اسلامی ریاست ِعراق اور بھگوڑوں کے گروہ (آئی ایس آئی ایل) کی طرف سے، جو القاعدہ سے وابستہ ہے۔

پلئی نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اِن میں سے کچھ افراد کو موت کی سزائیں اُس وقت دی گئیں، جب اڈوں کا قبضہ چھوڑتے وقت باغی جنگجوؤں نے زیرِ حراست افراد کا ’قتلِ عام‘ کیا، جو ’جنیوا کنوینشنز ‘کی خلاف ورزی ہے۔

جمعرات ہی کے روز، برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے کہا کہ شمالی شام میں’ آئی ایس آئی ایل‘ اور باغی دھڑوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں تقریباً 1000 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جِن میں 130شہری شامل تھے۔

سخت گیر مُلا، ابو قتادا، جِن کا دہشت گردی کے الزام میں اردن میں مقدمہ چل رہا ہے، شام میں انتہا پسند گروہوں پر زور دیا ہے کہ وہ آپس کی لڑائی بند کریں اور متحد ہوجائیں۔
XS
SM
MD
LG