واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اِس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ حکومت ِشام پھر کبھی کیمیائی ہتھیار استعمال نہ کرے، وہ فوجی کارروائی کی بہ نسبت سفارت کاری کو ’اوّلین ترجیح‘ دیتے ہیں۔
مسٹر اوباما نے پیر کی شام گئے امریکہ کے چھ ٹیلی ویژن نیٹ ورکس کو انٹرویو دیے، جِن میں اُنھوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو سزا دینے سےمتعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
’پی بی ایس ‘ٹیلی ویژن کے ’نیوز آور‘ پروگرام میں اُنھوں نے کہا کہ روس کی طرف سے سامنے آنے والی نئی تجویز جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے شام کو چاہیئے کہ اپنے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ بین الاقوامی برادری کے حوالے کر دے، جو بات ’ممکنہ پیش رفت‘ کا سبب بن سکتی ہے۔
صدر نے کہا کہ اُنھوں نے وزیر خارجہ جان کیری کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ اِس تجویز کی جُزیات کو طے کرنے کے لیے بات چیت کی جائے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اِس معاملے پر اُنھوں نے صدر ولادیمیر پیوٹن سے گذشتہ ہفتے سینٹ پیٹرز برگ میں ہونے والے ’جی 20‘کے سربراہ اجلاس کے دوران ’برجستہ‘ گفتگو کی۔
امریکی سربراہ نے کہا کہ اُن کی اولین ترجیح یہی ہوگی کہ سفارقی طریقے سے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔
شام نے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے حوالگی کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے، تاکہ امریکی فوجی کارروائی سے بچا جاسکے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی اِس تجویز کی توثیق کی ہے۔
مسٹر اوباما نے انٹرویو لینےوالوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوجی کارروائی کی زوردار دھمکی نے اثر دکھایا ہے، اور بشارالاسد کی حکومت قائل ہو چکی ہے کہ اپنے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ حوالے کرنے پر غور کرے۔
ایسے میں جب کانگریس امریکی فوجی کارروائی کی منظوری پر بحث کرنے والی ہے، مسٹر اوباما نے تسلیم کیا کہ امریکیوں کی اکثریت نہیں چاہتی کہ امریکہ ایسی کوئی کارروائی کرے۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات امریکہ کے طویل المدتی مفاد میں ہوگی کہ کیمیائی ہتھیاروں پر عائد بین الاقوامی پابندی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ وہ اعتماد کے ساتھ یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ کانگریس شام پر حملے کے اختیار کی منظوری دے دے گی۔
مسٹر اوباما نے پیر کی شام گئے امریکہ کے چھ ٹیلی ویژن نیٹ ورکس کو انٹرویو دیے، جِن میں اُنھوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو سزا دینے سےمتعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
’پی بی ایس ‘ٹیلی ویژن کے ’نیوز آور‘ پروگرام میں اُنھوں نے کہا کہ روس کی طرف سے سامنے آنے والی نئی تجویز جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے شام کو چاہیئے کہ اپنے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ بین الاقوامی برادری کے حوالے کر دے، جو بات ’ممکنہ پیش رفت‘ کا سبب بن سکتی ہے۔
صدر نے کہا کہ اُنھوں نے وزیر خارجہ جان کیری کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ اِس تجویز کی جُزیات کو طے کرنے کے لیے بات چیت کی جائے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اِس معاملے پر اُنھوں نے صدر ولادیمیر پیوٹن سے گذشتہ ہفتے سینٹ پیٹرز برگ میں ہونے والے ’جی 20‘کے سربراہ اجلاس کے دوران ’برجستہ‘ گفتگو کی۔
امریکی سربراہ نے کہا کہ اُن کی اولین ترجیح یہی ہوگی کہ سفارقی طریقے سے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔
شام نے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے حوالگی کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے، تاکہ امریکی فوجی کارروائی سے بچا جاسکے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی اِس تجویز کی توثیق کی ہے۔
مسٹر اوباما نے انٹرویو لینےوالوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوجی کارروائی کی زوردار دھمکی نے اثر دکھایا ہے، اور بشارالاسد کی حکومت قائل ہو چکی ہے کہ اپنے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ حوالے کرنے پر غور کرے۔
ایسے میں جب کانگریس امریکی فوجی کارروائی کی منظوری پر بحث کرنے والی ہے، مسٹر اوباما نے تسلیم کیا کہ امریکیوں کی اکثریت نہیں چاہتی کہ امریکہ ایسی کوئی کارروائی کرے۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات امریکہ کے طویل المدتی مفاد میں ہوگی کہ کیمیائی ہتھیاروں پر عائد بین الاقوامی پابندی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ وہ اعتماد کے ساتھ یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ کانگریس شام پر حملے کے اختیار کی منظوری دے دے گی۔