شام میں حکومت کے مخالف عناصر میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے اور وہ شامی فوج کی یلغار کے سامنے اپنے وجود کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جو لوگ ملک سے باہر ہیں، ان میں سے بیشتر شام کی نیشنل کونسل یا ’ایس این سی‘ کے سائے تلے جمع ہو گئے ہیں جس کی قیادت پیرس میں مقیم علمی شخصیت برہان غلی اون کے پاس ہے۔ لیکن گزشتہ مہینے کے آخر میں، ایسا لگتا تھا کہ ’ایس این سی‘ کے کئی ممتاز ارکان باغی فری سیرین آرمی کو فوجی امداد فراہم کرنے کے سوال پر اس گروپ سے الگ ہو جائیں گے۔
ہیتھم المالح جو ایک عرصے سے انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور ’سیرین پٹریاٹک گروپ‘ کے لیڈر ہیں، کہتے ہیں کہ وہ ’ایس این سی‘ سے الگ تو نہیں ہوئے ہیں، لیکن ان کے خیال میں اب فوجی کارروائی کا وقت آ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف میں بہت سی مختلف آوازوں کی موجودگی، صحت مندانہ رجحان ہے۔
’’حزبِ اختلاف کوئی ایک ادارہ، یا ایک یونین نہیں ہے۔ لیکن مستقبل کے بارے میں ہم سب کا نظریہ ایک ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے، سیرین نیشنل کونسل کے اندر بھی کچھ اختلاف ِ رائے موجود ہے۔ میرے خیال میں برہان غلی اون باغی فوج کو ہتھیاروں کی مدد فراہم کرنے کا سخت اقدام کرنا نہیں چاہتے۔ وہ اس خیال کے مخالف ہیں۔ شاید وہ ڈرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ان کا نظریہ کیا ہے۔‘‘
کئی دنوں کے بعد، غلی اون کے اس اعلان کے باوجود بھی کہ انھوں نے باغی فوج کے ساتھ کام کرنے کے لیے ایک فوجی کونسل تشکیل دے دی ہے، یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ ایس این سی کے لیڈر کے ارادے کیا ہیں۔ فری سیرین آرمی کے سربراہ نے کہا کہ ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا، اور مسلح حزب اختلاف کے دوسرے دھڑوں نے کہا کہ وہ الگ الگ اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
طویل عرصے سے سیاست میں سرگرم اور ایس این سی کے رکن ولید البونی کہتے ہیں کہ غلی اون کا اقدام نیک نیتی سے عاری ہے۔ ان کے مطابق ’’یہ کیا بات ہوئی کہ آپ نے ایک ملٹری کونسل بنا لی اور ایس این سی میں جو لوگ شامل ہیں ان سے کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا۔ ہم سب نے یہ خبر ٹیلی ویژن پر سنی۔ کیا آپ کے خیال میں ا س قسم کا کوئی شخص اس فری آرمی کو مدد دینے کے بارے میں سنجیدہ ہو سکتا ہے؟ میرے خیال میں تو نہیں ہو سکتا۔‘‘
اتاسی اور البونی کا خیال ہے کہ ایس این سی کو زیادہ اعلیٰ پائے کے لیڈر کی ضرورت ہے، اور گروپ کو چاہیئے کہ وہ حکومت کے مخالف عناصر کے زیادہ وسیع حلقے کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرے۔
غلیی اون کہتے ہیں کہ اگر اس قسم کی شخصیتیں جیسے مائیکل کیلو، ارف ڈالیلا یا صحیراتاسی ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئی ہیں تو یہ گویا ہمارا قصور ہے ۔
لیکن البونی کہتے ہیں کہ حکومت کے مخالفین کے درمیان اختلافات اتنے زیادہ شدید نہیں ہیں کہ انہیں شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے ایس این سی کو مدد کے فقدان یا اسے تسلیم نہ کیے جانے کا جواز بنایا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ان کی طرف سے بشا رالاسد کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شام کی حزبِ اختلاف متحد نہیں ہے ۔ میں یہ بات نہیں مانتا کہ ہمارے درمیان نا اتفاقی کی وجہ سے انھوں نے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ انھوں نے اب تک کچھ اس لیے نہیں کیا ہے کیوں کہ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتے تھے۔‘‘
امریکہ اور یورپی یونین نے سخت الفاظ میں صدر اسد کی مذمت کی ہے، لیکن جیسا کہ صدر براک اوباما نے منگل کے روز پھر کہا کہ اسد کے خلاف یکطرفہ اقدام کرنا غلطی ہو گی۔ چونکہ روس اور چین نے فوجی طاقت کے استعمال کی مخالفت کی ہے، اس لیے بین الاقوامی کوششیں موثر ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ شام کی جغرافیائی اور سیاسی صورت حال لیبیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ لیبیا میں نیٹو نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ،ان اندیشوں کی وجہ سے بھی کہ اسد حکومت کی جگہ کون لے گا، جوش و خروش میں کمی آئی ہے ۔ خیال یہ ہے کہ شدت پسند اسلام پرست بر سر اقتدار آ سکتے ہیں، اور فرقہ وارانہ جھگڑے بھی ہو سکتے ہیں،
لیکن البونی کی دلیل یہ ہے کہ اگر فری سیرین آرمی کی مدد نہ کی گئی تو یقیناً ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’دوسرے ملک کہہ رہے ہیں، یعنی یہ کہنے سے کہ ہم سیرین (فری) آرمی کی مدد نہیں کریں گے، ہم انہیں ہتھیار نہیں دیں گے، کیا نتیجہ نکلے گا؟ ہوگا یہ کہ ہر شامی گروپ کسی دوسری جگہ سے پیسہ حاصل کرے گا، جو کسی ایک مخصوص ملیشیا کا طرفدار ہو گا، اور پھر جب بشار الاسد چلے جائیں گے، تو ہر طرف افرا تفری پھیل جائے گی۔‘‘
مسلح بغاوت ایسی چیز نہیں ہے جسے، فری آرمی کی متحد کمان کے تحت بھی، ان دونوں شخصیتوں میں سے کوئی بھی معمولی بات سمجھتا ہو۔ البونی اورالمالح دونوں کئی عشروں سے اصلاحات اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے انسانی عزت و وقار کے لیے پُر امن طریقوں کی وکالت کی کی ہے، اور شام کی جیلوں میں اپنی کوششوں کی پاداش میں کئی سال گزارے ہیں۔
لیکن المالح کے خیال میں اب مسلح جدوجہد کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے: جنگ کرنا، کیوں کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اب تک بین الاقوامی برادری نے، ساری دنیا نے، شام کے لیے کچھ نہیں کیا ہے ۔ کیا ہم اب بھی انتظار کرتے رہیں کہ اور زیادہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوتی رہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ یہ وہ ٹیکس ہے جو آزادی کے لیے ادا کرنا پڑتا ہے اور یہ ٹیکس بہت زیادہ ہے، اور شام کے لوگ یہ ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ شام کے لوگ اب اپنی جدوجہد میں رکیں گے نہیں، اور نہ ہی شام کی حکومت رکنے پر تیار ہو گی۔