دنیا میں تنازعے شروع تو ہوئے ہیں مگر ختم نہیں ہوئے۔ خواہ یہ ایتھو پیا کا ٹگرے کا علاقہ ہو، یمن ہو، افغانستان یا شام۔ اور ان تنازعوں کے نتیجے میں انسانی زندگی کا جو بحران پیدا ہوتا ہے وہ بھی بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
شام ہی کو لے لیجئے، دس برس کی خانہ جنگی میں لاکھوں افراد کی زندگی جن خطرات کا شکار ہے وہ ختم ہوتے نظر نہیں آتے۔ اس لڑائی سے بھاگنے اور بے گھر ہونے والے افراد کیمپوں میں انتہائی دشوار زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔
ماہرین کے جائزے اور نامہ نگاروں کی رپورٹیں ان کیمپوں کی حالتِ زار بیان تو کرتی ہیں مگر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
اب اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے ایک پینل نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگرچہ شام کی دس سالہ خانہ جنگی دنیا بھر میں میڈیا کی خبروں کا مرکزی نکتہ نہیں رہا مگر وہاں جاری لڑائی اور عام لوگوں کی مشکلات ختم ہوتی نظر نہیں آتیں۔
شام کے بارے میں تین رکنی آزاد بین الاقوامی کمشن نے اپنی تازہ ترین رپورٹ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پیش کر دی ہے۔
شام میں اب اگرچہ سویلین ہلاکتوں کا بازار گرم نہیں ہے، کیمیائی حملے بھی نہیں ہو رہے اور نہ ہی شہروں پر لگاتار بم برسائے جا رہے ہیں، لیکن تین رکنی انکوائری کمشن نے خبردار کیا ہے کہ شام کے مشرقی علاقے میں بعض مقامات پر لڑائی اب بھی جاری ہے اور شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک پر اب بھی روک ٹوک نہیں ہے۔
اس کمشن کے سربراہ پاؤلو پئیرو نے کہا ہے کہ شام کی خانہ جنگی بہت پہلے شامی حکومت اور ان کے اندرونِ ملک مخالفین کی چپقلش سے بہت آگے نکل گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں اب ملکِ شام ان طاقتور ملکوں کی گرفت میں آنے کو ہے جو وہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔
پئیرو کا کہنا ہے "پانچ بین الاقوامی فوجیں، جن میں روسی، اسرائیلی اور امریکی ائیر فورس بھی شامل ہے، ان کے الحاقی اور دیگر نان سٹیٹ ایکٹرز کی بھرمار آج کے دن تک شام میں جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور شہری اس سب کے درمیان زندگی کی ڈور قائم رکھنے پر مجبور ہیں"۔
کمشن کے سربراہ پئیرو کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ پریشان کن صورتِ حال شام کے شمال مغرب میں ادلب میں ہے جہاں 27 لاکھ بے گھر افراد انتہائی مخدوش حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ کہتے ہیں ان لوگوں کو حیات تحریر الشام نامی دہشت گرد گروپ سے تشدد اور ترک اور شامی فوجیوں سے خطرات کا سامنا ہے۔
کمشن کی رپورٹ کے مطابق ملک کے بہت سے حصوں میں حالات بے حد غیر مستحکم ہیں۔ جابجا دھماکہ خیز ڈیوائسز بے شمار لوگوں کی ہلاکت اور معذوری کا باعث بن رہی ہیں۔
رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بچوں اور عورتوں سمیت عام شہریوں کی بلا جواز گرفتاریوں، ایذا رسانی، بچوں کی جبری بھرتیوں، طبی کارکنوں کے قتل کے علاوہ لوٹ مار اور املاک غصب کرنے کا اندراج بھی کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں حالات کی تاریک تصویر کشی کے علاوہ پئیرو کہتے ہیں کہ ایک مثبت بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے لاپتا افراد کا پتہ لگانے کے لئے ایک باقاعدہ طریقہ کار طے کرنے کی جانب پیش قدمی کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں لاپتا یا زیرِحراست شامی باشندوں کا پتہ لگانا اولین ترجیح ہے۔
آزاد بین الاقوامی کمشن کے سربراہ پاؤلو پئیرو کہتے ہیں،"اس اہم کارروائی کا مقصد شامی حکومت اور دیگر گروپوں کی جانب سے حراست میں رکھے گئے لوگوں کے نام، ان کے مقام کا جاننا اور ان تک رسائی کی کوشش ہے تاکہ ماورائے عدالت حراست میں رکھے گئے ان افراد کو فوری رہائی کے بعد بلا تاخیر ان کے گھروالوں سے ملا دیا جائے۔
رپورٹ پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے، اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیرحسام الدین اعلیٰ نے جینیوا میں کہا کہ رپورٹ میں غلط معلومات اور جھوٹ کی بھرمار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کونسل کی قراردادوں میں شامی حکام پر جو الزامات لگائے گئے ان کی بنیاد سیاسی ہے جبکہ ان کے الفاظ میں، ترک اور امریکی قابض فورسز کے جرائم اور کارروائیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔