واشنگٹن —
کیمیاوی ہتھیاروں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے نے شامی حکومت کی جانب اپنے کیمیائی اسلحے کے ذخیروں کی ابتدائی فہرست موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔
کیمیاوی ہتھیاروں پر پابندی کی نگران عالمی تنظیم 'او پی سی ڈبلیو' کے عہدیداران کے مطابق شام کی حکومت نے فہرست جمعرات کو جمع کرائی ہے۔
جمعے کو 'وائس آف امریکہ' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں عالمی تنظیم کے ترجمان مائیکل لوہان نے بتایا کہ انہیں امید ہے کہ شام اپنے کیمیائی اسلحے سے متعلق مزید معلومات رواں ہفتے کے اختتام تک جمع کرادے گا۔
دمشق حکومت نے یہ قدم امریکہ اور روس کے اعلیٰ حکام کے درمیان گزشہ ہفتے طے پانے والے ایک منصوبے کے تحت اٹھایا ہے جس کے تحت شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کو عالمی نگرانی میں لے کر انہیں مرحلہ وار تلف کیا جائے گا۔
مجوزہ منصوبے کے تحت دونوں بڑی عالمی طاقتوں نے دمشق حکومت کو اپنے پاس موجود کیمیائی اسلحے کی تفصیلی فہرست عالمی تنظیم کو فراہم کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔
منصوبے کے تحت شام 2014ء کے وسط تک اپنے تمام کیمیائی ہتھیار یا تو خود تلف کردے گا یا انہیں عالمی نگرانی میں دیدے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری خبردار کرچکے ہیں اگر شام نے اس منصوبے سے روگردانی کی تو اقوامِ متحدہ سے اس کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی درخواست کی جائے گی۔
'او پی سی ڈبلیو' کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شام کی جانب سے فہرستیں موصول ہونے کے بعد اتوار کو تنظیم کے ایک اجلاس میں اس بارے میں آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا۔
لیکن بعد ازاں ترجمان نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ اتوار کو ہونے والا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل رواں ہفتے اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی ایک رپورٹ میں تصدیق کی گئی تھی کہ شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں 21 اگست کو کیے جانے والے حملے میں کیمیائی ہتھیار ہی استعمال کیے گئے تھے۔
لیکن واقعے کی تحقیقات کرنے والے عالمی ادارے کے معائنہ کاروں نے اپنی رپورٹ میں حملے کے ذمہ داران کا تعین نہیں کیا تھا۔
امریکہ اور مغربی ممالک کا الزام ہے کہ یہ حملہ شام کے صدر بشار الاسد کی حامی افواج نے کیا تھا جس میں امریکی حکام کے دعویٰ کے مطابق 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
واقعے کے ردِ عمل میں امریکہ اور فرانس نے شام کے خلاف فوجی کاروائی کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں لیکن شامی حکومت کے قریب ترین اتحادی روس کی سخت مخالفت کے بعد عالمی طاقتوں نے شام میں جاری تنازع کے حل کے لیے سفارت کاری کو مزید وقت دینے پر اتفاق کیا ہے۔
کیمیاوی ہتھیاروں پر پابندی کی نگران عالمی تنظیم 'او پی سی ڈبلیو' کے عہدیداران کے مطابق شام کی حکومت نے فہرست جمعرات کو جمع کرائی ہے۔
جمعے کو 'وائس آف امریکہ' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں عالمی تنظیم کے ترجمان مائیکل لوہان نے بتایا کہ انہیں امید ہے کہ شام اپنے کیمیائی اسلحے سے متعلق مزید معلومات رواں ہفتے کے اختتام تک جمع کرادے گا۔
دمشق حکومت نے یہ قدم امریکہ اور روس کے اعلیٰ حکام کے درمیان گزشہ ہفتے طے پانے والے ایک منصوبے کے تحت اٹھایا ہے جس کے تحت شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کو عالمی نگرانی میں لے کر انہیں مرحلہ وار تلف کیا جائے گا۔
مجوزہ منصوبے کے تحت دونوں بڑی عالمی طاقتوں نے دمشق حکومت کو اپنے پاس موجود کیمیائی اسلحے کی تفصیلی فہرست عالمی تنظیم کو فراہم کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔
منصوبے کے تحت شام 2014ء کے وسط تک اپنے تمام کیمیائی ہتھیار یا تو خود تلف کردے گا یا انہیں عالمی نگرانی میں دیدے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری خبردار کرچکے ہیں اگر شام نے اس منصوبے سے روگردانی کی تو اقوامِ متحدہ سے اس کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی درخواست کی جائے گی۔
'او پی سی ڈبلیو' کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شام کی جانب سے فہرستیں موصول ہونے کے بعد اتوار کو تنظیم کے ایک اجلاس میں اس بارے میں آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا۔
لیکن بعد ازاں ترجمان نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ اتوار کو ہونے والا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل رواں ہفتے اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی ایک رپورٹ میں تصدیق کی گئی تھی کہ شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں 21 اگست کو کیے جانے والے حملے میں کیمیائی ہتھیار ہی استعمال کیے گئے تھے۔
لیکن واقعے کی تحقیقات کرنے والے عالمی ادارے کے معائنہ کاروں نے اپنی رپورٹ میں حملے کے ذمہ داران کا تعین نہیں کیا تھا۔
امریکہ اور مغربی ممالک کا الزام ہے کہ یہ حملہ شام کے صدر بشار الاسد کی حامی افواج نے کیا تھا جس میں امریکی حکام کے دعویٰ کے مطابق 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
واقعے کے ردِ عمل میں امریکہ اور فرانس نے شام کے خلاف فوجی کاروائی کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں لیکن شامی حکومت کے قریب ترین اتحادی روس کی سخت مخالفت کے بعد عالمی طاقتوں نے شام میں جاری تنازع کے حل کے لیے سفارت کاری کو مزید وقت دینے پر اتفاق کیا ہے۔