واشنگٹن —
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ گذشتہ ماہ شام میں کیے جانے والے کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ حملہ شامی صدر بشار الاسد کی افواج نے کیا۔
جمعرات کو محکمہٴخارجہ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، کیری نے کہا کہ حقائق ’پیچیدہ نہیں‘ ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، ’سارین گیس کا استعمال ہوا۔ سارین نے لوگوں کو ہلاک کیا۔ دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا آیا اِسے اُسی حکومت نے استعمال کیا جو اِس سے قبل بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کرتی آئی ہے۔ وہ حکومت جس کے پاس راکیٹ اور ایسے ہتھیار ہیں، یا پھر مخالفین خفیہ طور پر ایسے علاقے کے اندر داخل ہوئے جہاں اُن کا کنٹرول نہیں ہے اور راکیٹ داغے، جو اُن کے پاس نہیں ہیں۔ اُن کے پاس سارین گیس نہیں ہے، جس سے وہ اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کریں۔ اور چھپ کر ایسی کارروائی کرکے، وہ خاموشی سے دمشق کے اس مقام سے لوٹ آئے جہاں اسد کا کنٹرول ہے‘۔
اِس سے قبل، امریکی نیٹ ورک ’فوکس نیوز‘ کو دیے گے ایک انٹرویو میں، صدر اسد نے اس بات کی تردید کی کہ اُن کی افواج نے دمشق کے قریب زہریلی گیس کا حملہ کرکے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو تلف کرنے کے معاملے میں پُر عزم ہیں، اور اُنھوں نے امریکہ اور روس کی جانب سے طے ہونے والے منصوبے پر عمل درآمد کا عہد کیا، جس کے تحت 2014ء کے وسط تک کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو تلف کیا جائے گا۔ مسٹر اسد نے صورتِ حال کو ’پیچیدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِن ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے پر تقریباً ایک ارب ڈالر کی لاگت آئے گی اور اس میں ایک سال یا ’اس سے کچھ زیادہ عرصہ‘ درکار ہوگا۔
شیرون وائین، امریکن یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر ہیںٕ۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکہ روس نظام الاوقات کا دارومدار دونوں طاقتوں کی طرف صرف حتمی تاریخ پر رضامند ہونا کافی نہیں ہوگا۔
اُن کے الفاظ میں: ’جہاں تک ہتھیاروں کو تلف کرنے کا سوال ہے، کیا اِنھیں اِس عرصے میں تباہ کیا جاسکتا ہے؟ یقیناً۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا اِس بات پر سمجھوتا ہوا ہے کہ کس کے پاس کُل کتنے ہتھیار ہیں، اور بعید از قیاس نہیں، کہ کچھ ہتھیار پھر بھی باقی رہ جائیں‘۔
وائنر نے مزید کہا کہ شام کے ہتھیاروں کے ذخیرے کو ٹھکانے لگانے میں اصل کتنی لاگت آئے گی، یہ بات ابھی واضح نہیں۔
روسی وزیر دفاع، سرگئی شوگو نے کہا ہے کہ اُن کے ملک نے ایسا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا جس سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو اپنے علاقے میں ناکارہ بنایا جائے گا، حالانکہ، اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اُن کے پاس اِس طرح کی تنصیبات موجود ہیں۔
روس اور امریکہ دو ایسے ممالک ہیں جن کے پاس ’مَسٹرڈ‘، ’سارین‘ یا ’سائنائیڈ‘ سے لیس ہتھیاروں کو تلف کرنے کی صنعتی سطح کی استعداد موجود ہے۔ تاہم، امریکی قانون کی رو سے، کیمیائی ہتھیاروں کی درآمد پر بابندی ہے۔
تخفیف اسلحہ کا منصوبہ جس پر ابھی تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کےایلچی بحث کر رہے ہیں، اُس میں حکومتِ شام سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ ہفتے کے دِن تک اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیل حوالے کردے۔ مسٹر اسد نے کہا کہ وہ ’کل‘ ہی ایسا کرنے پر تیار ہیں اور وہ ماہرین کو اُن مقامات تک رسائی دینے پر رضامند ہیں جہاں اِنھیں ذخیرہ کیا گیا ہے۔
حالانکہ رپورٹ میں کسی پر ذمہ داری عائد نہیں کی گئی، امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ رپورٹ سے یہ بات بخوبی پتا چلتی ہے کہ یہ حکومتی افواج کی کارستانی ہے، نہ کہ باغیوں کی، جو ہی دراصل اُس حملے کی ذمہ دار ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کی طرف سے اِکٹھا کیا گیا ثبوت، جسے پیر کو جاری کیا گیا، ’ناقابلِ تردید‘ اور ’واضح طور پر‘ اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ غوتہ کے حملے کے دوران ایک نسبتاً چھوٹے سے رقبے پر سارین گیس کا استعمال کیا گیا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اِس حملے میں 1400 افراد ہلاک ہوئے۔
جمعرات کو محکمہٴخارجہ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، کیری نے کہا کہ حقائق ’پیچیدہ نہیں‘ ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، ’سارین گیس کا استعمال ہوا۔ سارین نے لوگوں کو ہلاک کیا۔ دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا آیا اِسے اُسی حکومت نے استعمال کیا جو اِس سے قبل بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کرتی آئی ہے۔ وہ حکومت جس کے پاس راکیٹ اور ایسے ہتھیار ہیں، یا پھر مخالفین خفیہ طور پر ایسے علاقے کے اندر داخل ہوئے جہاں اُن کا کنٹرول نہیں ہے اور راکیٹ داغے، جو اُن کے پاس نہیں ہیں۔ اُن کے پاس سارین گیس نہیں ہے، جس سے وہ اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کریں۔ اور چھپ کر ایسی کارروائی کرکے، وہ خاموشی سے دمشق کے اس مقام سے لوٹ آئے جہاں اسد کا کنٹرول ہے‘۔
اِس سے قبل، امریکی نیٹ ورک ’فوکس نیوز‘ کو دیے گے ایک انٹرویو میں، صدر اسد نے اس بات کی تردید کی کہ اُن کی افواج نے دمشق کے قریب زہریلی گیس کا حملہ کرکے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو تلف کرنے کے معاملے میں پُر عزم ہیں، اور اُنھوں نے امریکہ اور روس کی جانب سے طے ہونے والے منصوبے پر عمل درآمد کا عہد کیا، جس کے تحت 2014ء کے وسط تک کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو تلف کیا جائے گا۔ مسٹر اسد نے صورتِ حال کو ’پیچیدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِن ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے پر تقریباً ایک ارب ڈالر کی لاگت آئے گی اور اس میں ایک سال یا ’اس سے کچھ زیادہ عرصہ‘ درکار ہوگا۔
شیرون وائین، امریکن یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر ہیںٕ۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکہ روس نظام الاوقات کا دارومدار دونوں طاقتوں کی طرف صرف حتمی تاریخ پر رضامند ہونا کافی نہیں ہوگا۔
اُن کے الفاظ میں: ’جہاں تک ہتھیاروں کو تلف کرنے کا سوال ہے، کیا اِنھیں اِس عرصے میں تباہ کیا جاسکتا ہے؟ یقیناً۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا اِس بات پر سمجھوتا ہوا ہے کہ کس کے پاس کُل کتنے ہتھیار ہیں، اور بعید از قیاس نہیں، کہ کچھ ہتھیار پھر بھی باقی رہ جائیں‘۔
وائنر نے مزید کہا کہ شام کے ہتھیاروں کے ذخیرے کو ٹھکانے لگانے میں اصل کتنی لاگت آئے گی، یہ بات ابھی واضح نہیں۔
روسی وزیر دفاع، سرگئی شوگو نے کہا ہے کہ اُن کے ملک نے ایسا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا جس سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو اپنے علاقے میں ناکارہ بنایا جائے گا، حالانکہ، اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اُن کے پاس اِس طرح کی تنصیبات موجود ہیں۔
روس اور امریکہ دو ایسے ممالک ہیں جن کے پاس ’مَسٹرڈ‘، ’سارین‘ یا ’سائنائیڈ‘ سے لیس ہتھیاروں کو تلف کرنے کی صنعتی سطح کی استعداد موجود ہے۔ تاہم، امریکی قانون کی رو سے، کیمیائی ہتھیاروں کی درآمد پر بابندی ہے۔
تخفیف اسلحہ کا منصوبہ جس پر ابھی تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کےایلچی بحث کر رہے ہیں، اُس میں حکومتِ شام سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ ہفتے کے دِن تک اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیل حوالے کردے۔ مسٹر اسد نے کہا کہ وہ ’کل‘ ہی ایسا کرنے پر تیار ہیں اور وہ ماہرین کو اُن مقامات تک رسائی دینے پر رضامند ہیں جہاں اِنھیں ذخیرہ کیا گیا ہے۔
حالانکہ رپورٹ میں کسی پر ذمہ داری عائد نہیں کی گئی، امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ رپورٹ سے یہ بات بخوبی پتا چلتی ہے کہ یہ حکومتی افواج کی کارستانی ہے، نہ کہ باغیوں کی، جو ہی دراصل اُس حملے کی ذمہ دار ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کی طرف سے اِکٹھا کیا گیا ثبوت، جسے پیر کو جاری کیا گیا، ’ناقابلِ تردید‘ اور ’واضح طور پر‘ اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ غوتہ کے حملے کے دوران ایک نسبتاً چھوٹے سے رقبے پر سارین گیس کا استعمال کیا گیا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اِس حملے میں 1400 افراد ہلاک ہوئے۔