شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی نمائندے کوفی عنان نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ مخالفین کے خلاف جاری پرتشدد کاروائیاں مکمل طور پر روکنے کے لیے صدر بشار الاسد کی حکومت کو 10 روز کی مہلت دے۔
سفارت کاروں کے مطابق کوفی عنان نے یہ اپیل پیر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں کی جس سے انہوں نے بذریعہ ویڈیو کانفرنس جنیوا سے خطاب کیا۔
کونسل کی کاروائی سے آگاہی رکھنے والے سفارت کاروں کے بقول اقوامِ متحدہ کے سابق سربراہ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ صدر الاسد نے 10 اپریل سے جزوی جنگ بندی شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اگلے 48 گھنٹوں میں اسے مکمل جنگ بندی میں بدلنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
شام میں گزشتہ ایک برس سے جاری بحران کے خاتمے کے لیے کوفی عنان کی جانب سےپیش کردہ امن منصوبے میں شامی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ بحران کے حل کی جانب پہلے قدم کے طور پر جنگ بندی کرے۔
مجوزہ امن منصوبے میں شامی حکومت سے حزبِ اختلاف کے احتجاجی مراکز میں تعینات فوجی دستوں میں کمی اور بھاری ہتھیاروں اور فوجی دستوں کے انخلا کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
سلامتی کونسل ایک بیان کے ذریعے پہلے ہی مجوزہ امن منصوبے کی حمایت کر چکی ہے تاہم اس میں بحران کے حل کے لیے شامی حکومت اور باغیوں کے لیے کسی ڈیڈ لائن کا تعین نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے ایک بار پھر عالمی برادری کی جانب سے شامی حکومت سے امن منصوبے پر عمل درآمد کے مطالبات کی مخالفت کی ہے۔
آرمینیا کے دورے پر موجود روسی وزیرِ خارجہ نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "مصنوعی ڈیڈلائن سے معاملات کم ہی حل ہوپاتے ہیں"۔
روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ڈیڈ لائن کا اطلاق تنازع کے تمام فریقین پر ہونا چاہیے لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ لڑائی کے خاتمے کے لیے شامی حکومت کو پہل کرنا ہوگی۔
ادھر عالمی امدادی ادارے 'ریڈ کراس' کے سربراہ جیکب کیلن برجر نے دوبارہ شام جانے کا اعلان کیا ہے تاکہ شامی حکام سے تشدد کا شکار علاقوں میں پھنسے عوام تک امداد پہنچانے کی اجازت حاصل کی جاسکے۔