اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں منگل کو ایک مجوزہ قرارداد پر رائے شماری متوقع ہے جس میں حکومت مخالف مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنانے پر شام کی حکومت پر تنقید کی گئی ہے۔
یورپی ممالک کی جانب سے پیش کی گئی اس قرارداد میں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر صدر بشار الاسد کی حکومت نے ان کی اقتدار سے بے دخلی کا مطالبہ کرنے والے جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف جاری جارحانہ کاروائیاں نہ روکیں تو اس کے خلاف "اقدامات " اٹھائے جائیں گے۔
امریکی محکمہ داخلہ کی ایک خاتون ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا ہے کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ شام کے خلاف ایک سخت قرارداد کی منظوری سلامتی کونسل پر "طویل مدت سے عائد ایک قرض" ہے۔
ترجمان کےبقول امریکی حکام کو امید ہے کہ قرارداد کو اقوامِ متحدہ میں بھرپور حمایت حاصل ہوگی۔
قبل ازیں روس نے اعلان کیا تھا کہ وہ مجوزہ قرارداد کی حمایت نہیں کرے گا کیوں کہ اس کے بقول قرارداد کے الفاظ "ناقابلِ قبول" ہیں۔
روسی خبر رساں ایجنسی 'انٹر فیکس' نے وزیرِ خارجہ جیناڈی گیٹیلوو کے حوالے سے کہا ہے کہ قرارداد کے مسودے میں شام پر اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے کے امکان کو کھلا رکھا گیا ہے جس کی ماسکو مخالفت کرتا ہے۔
دریں اثنا انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے کہ شام کے شمال مغربی علاقے میں سرکاری افواج اور حزبِ مخالف سے جا ملنے والے باغی فوجیوں کے درمیان منگل کو ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
تازہ جھڑپیں شام کے وسطی شہر رستان میں گزشتہ کئی روز سے جاری فوجی آپریشن کے بعد ہوئی ہیں جس کے دوران سیاسی کارکنوں کے بقول سرکاری افواج نے لگ بھگ تین ہزار افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعا' کےمطابق گرفتار شدگان کی تعداد درجنوں میں ہے۔
شام کی حکومت ملک پر 11 برسوں سے برسرِ اقتدار بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے گزشتہ سات ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے مسلسل فوجی طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق سرکاری کریک ڈائون میں اب تک کم از کم 2700 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔