اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ نے بدھ 28ستمبر کے اخبار میں شام کے سیاسی بحران میں امریکی کردار کے بارے میں اداریہ رقم بندکیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ مہینوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی اس بارے میں الجھے ہوئے ہیں کہ شام میں جاری پُر امن احتجاجی تحریک پر کس طرح ردِ عمل ظاہر کیا جائے۔اوباما انتظامیہ نے سُست روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام کے مطلق العنان حکمران بشارالاسد پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں سیاسی اصلاحات نافذ کریں۔
دوسری طرف، شام میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔مسٹر اسد کی مخالف فورسز اور حکومت کے درمیان جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے، اور یہی حالات امریکہ سے متقاضی ہیں کہ وہ اِس سلسلے میں سخت مؤقف اختیار کرے۔
اِس طرح کی خبریں بھی آرہی ہیں کہ شام کی سکیورٹی فورسز اور فوج کے تقریباً 10000اہل کار حکومت کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔یہ بھی خبر یں ملی ہیں کہ لاکھوں لوگوں نے’ آزاد شامی فوج اور آزاد افسران تحریک‘ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اِس طرح کی فورسز کا نمودار ہونا کوئی اچھی علامت نہیں ہے، کیونکہ تشدد کی فضا میں انتہا پسندوں کو آگے بڑھنے کا موقعہ ملے گا۔
شام اِس وقت خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے اور امریکی انتظامیہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اِس کی ذمہ داری صدر اسد پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ کیا کرنا چاہیئے؟
اِس سلسلے میں اولین قدم یہ ہے کہ شام کی منظم حزبِ اختلاف پر زور ڈالا جائے کہ وہ تشد سے احتراز کرے۔اِس کے علاوہ، شام کی حکومت کے لیے اسلحے کی ترسیل کو روکا جائے۔
اخبار نے مزید لکھا ہے کہ شام میں خانہ جنگی کو روکنے کا واحد راستا یہی ہے کہ صدر اسد اقتدار چھوڑ دیں اور اِس سلسلے میں امریکہ کو دھیمے لہجے کے بجائے جارحانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ امریکی انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ چین، روس اور عرب لیگ سے کہے کہ وہ سخت پابندیوں کی حمایت کریں۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے آخر میں لکھا ہے کہ حقیقی خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے اِس بحران سے نمٹنا کہیں زیادہ آسان ہے۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جِس کا عنوان ہے ’یہ جنگ ابھی جیتی جاسکتی ہے‘۔
افغانستان کی جنگ کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے لکھا ہے کہ 14مہینوں کے بعد امریکی افواج کی واپسی شروع ہو جائے گی۔افغانیوں کو بھی علم ہے کہ ہم جانے والے ہیں، جب کہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سرکش باغیوں کا بہت سے علاقوں پر کنٹرول قائم ہے اور یہ یقینی طور پر اُس وقت جوابی کارروائی کریں گے جب غیر ملکی افواج کا انخلا شروع ہوجائے گا۔ تاہم، مجھے یقین ہے کہ افغانستان کے عوام یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں اور اِسے وہ ہر حال میں جیتیں گے۔
مضمون نگار فرینڈو ایملوجان افغانستان میں رہ چکے ہیں اور اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ، اِس طرح کی جنگوں میں ’فتح‘ کا لفظ کسی قدر بے معنی ہوجاتا ہے۔ تاہم، افغانستان کے لیے ہمارا عزم پختہ ہے تو پھر وہاں بڑی فوج یا قیام کی مدت میں توسیع کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں انتہائی مہارت اور چابک دستی سے اُن افغانیوں کو تربیت دے کر آگے لانا ہوگا جو اپنے ملک کی قیادت اور خدمت کرنے کے خواہش مند ہیں۔
ایک اور امریکی اخبار ’لاس انجلیس ٹائمز‘ کے اداریے میں روس کے لیڈر ولادی میر پیوتن کی جانب سے صدارت کے لیے دوبارہ امیدوار بننے کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔
اخبارنے لکھا ہے کہ پیوتن سنہ 2000سے 2008تک روس کے صدر رہ چکے ہیں۔ لیکن، بعد میں اُن کو آئینی تقاضے کے تحت مجبور ہوکر یہ عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اب مسٹر پیوتن نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک بار پھر صدارتی عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے۔
مسٹر پیوتن کے اِس اعلان کے بعد روس میں اکا دکا احتجاج ہوا ہے۔ مسٹر پیوتن کے صدارتی عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اس سے مسٹر پیوتن کے آمرانہ اقتدار کو تقویت ملے گی۔
دوسری طرف ، یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ مسٹر پیوتن روس کو جمہوری ملک بنانے کے لیے کوئی اصلاحات کریں گے یا بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں کو روکیں گے۔
اخبار نے آخر میں لکھا ہے کہ مسٹر پیوتن صدر بننے کے بعد جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کریں گے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: