اگرچہ انٹرنیٹ اور موبائل کے نیٹ ورک میں کئی بار خلل ڈالا گیا، لیکن شام کے نوجوان ہفتوں سے اپنے کمپیوٹروں اور موبائل فونز پر مصروف ہیں۔ اُنھوں نے ٹوئیٹر (Twitter) پر پیغام بھیجے، یو ٹیوب پر وڈیو اپ لوڈ کیں، فیس بُک کے صفحات کو تازہ کرتے رہے اور باہر کی دنیا میں انسانی حقوق کے حامیوں اور صحافیوں سے مستقل رابطہ قائم رکھا۔
چونکہ ملک میں غیر ملکی صحافیوں کا داخلہ ممنوع ہے اس لیے وہ ان طریقوں سے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے۔
جمہوریت کے لیے سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ اب سے چند مہینے پہلے تک شام میں فیس بُک اور ٹوئیٹر کا نام بہت کم لوگوں نے سنا تھا۔
شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں عرب موسم بہار پھیلنا شروع ہوا تو شام کے نوجوان سوشل میڈیا کے رول سے واقف ہوئے۔ اب ہزاروں نوجوان سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ رامی نکحیل گرفتاری بچنے کے لیے اپنے آبائی وطن شام کو چھوڑ کر گذشتہ چند مہینوں سے لبنان میں رہ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس تحریک کی ابتدا انٹرنیٹ پر نوجوانوں سے ہوئی لیکن پھر نوجوان سڑکوں پر آ گئے اور ان کے ساتھ ہر عمر کے لوگ شامل ہو گئے۔ ’’یہ انقلاب مکمل طور سے بے ساختہ، ازخود شروع ہوا۔ اس کی قیادت پوری طرح نوجوان کررہے ہیں۔ اگر نوجوان احتجاج کی آواز بلند نہ کرتے، تو بوڑھے لوگ گھروں میں ہی بیٹھے رہتے۔ لیکن جب انھوں نے مسجد میں، اپنے گھروں کے سامنے بڑی تعداد میں لوگوں کو دیکھا تو وہ بھی شامل ہو گئے۔ لیکن اسےمنظم کرنے والے جوان لوگ ہی ہیں‘‘۔
احتجاجیوں نے مطالبہ کیا کہ ایمرجینسی کا ظالمانہ قانون جس کے تحت احتجاج کرنا ممنوع ہے واپس لیا جائے۔ انھوں نے سیاسی پارٹیوں کو قانونی حیثیت دینے اور بد عنوان سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ صدر اسد نے اصلاحات کا وعدہ کیا اور 21 اپریل کو انھوں نے کہا کہ وہ اس قانون کو اٹھا رہے ہیں جس کے تحت لوگوں کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سیکورٹی فورسز نے پر تشدد کارروائیاں جاری رکھی ہیں اور ملک بھر میں احتجاج کرنے والے سینکڑوں لوگ جو بیشتر نوجوان ہیں، گرفتار یا ہلاک کیے جا چکے ہیں۔
شام کے سر گرم کارکن خالد ایکحیاتار کہتے ہیں کہ کیوں کہ میڈیا پر سخت پابندی لگی ہوئی ہے اس لیے دنیا کو اس انقلاب کے بارے میں آگاہ کرنے کی ذمہ داری احتجاج کرنے والوں پر ہے۔ ’’جو لوگ ا ن مظاہروں کو منظم کر رہے ہیں، وہ مظاہروں میں جاتے ہیں، ان کی وڈیو بناتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ خود انہیں گولی لگ جائے یا وہ ہلاک ہو جائیں۔ پھر انہیں اس وڈیو کو اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے، اور پھر انہیں اگلے دن کے مظاہروں کی تیار ی کرنی ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، انہیں سارا کام خود کرنا ہوتا ہے‘‘۔
ندیم ہیوری ہیومن رائٹس واچ کے بیروت آفس کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ احتجاجیوں نے خود کو بڑے غیر رسمی انداز سے منظم کیا ہوا ہے ۔ ان میں سیکولر لبرل اور دانشور بھی ہیں اور روایتی قدامت پسند بھی جیسے شیخ اور امام۔ ’’یہ کوئی لوگوں کے مرتبے کے لحاظ سے منظم کی ہوئی تحریک نہیں ہے۔ مصر اور تیونس کی طرح یہ تحریک کسی تنظیم کے بغیر Daraa میں خفیہ پولیس کے ایک خاص طور پر سفاک آدمی کی وجہ سے شروع ہو ئی۔ وہاں کے احتجاج کی خبر دوسرے کارکنوں کے ذریعے دوسرے علاقوں میں پھیل ہوگئی‘‘۔
ندیم کہتے ہیں کہ بیرون ملک رہنے والے شامیوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، خاص طور سے اطلاعات کو دنیا کے دوسرے علاقوں تک پھیلانے میں۔
بیروت میں امریکن یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر ہلال کاشان کہتے ہیں شام کے اندر منظم سیاسی مخالفین کو بشر الاسد کے والد حافظ الاسد نے مکمل طور سے کچل دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اب وہاں کسی واضح حزب اختلاف کا وجود نہیں ہے۔’’شام میں کوئی حزب اختلاف نہیں ہے، سوائے اس کے کہ آ پ کا مطلب اخوان المسلمین سے ہو، جنہیں حافظ الاسد نےHama میں 1982 قتل عام کے بعد ملک سے باہر نکال دیا تھا۔ شام میں مظاہرے کسی کے کہنے پر نہیں ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض ملک اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہوں جیسا کہ شام کی حکومت کہہ رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سڑکوں پر نکلنے والے لوگ کسی کے کہنے پر نہیں، بلکہ از خود احتجاج کے لیئے نکل رہے ہیں‘‘۔
پروفیسر کاشان کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ شام کی سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں میں سے کچھ لوگ لیڈر کا رول ادا کرنے لگیں گے۔ لیکن اس وقت تو جو کوئی بھی اس تحریک کا لیڈر بن کر ابھرے گا اس کے جیل جانے یا ہلاک کر دیے جانے کا خطرہ ہو گا۔