شام میں انسانی حقوق سےمتعلق سرگرم کارکنوں کا کہنا ہےکہ سرکاری فوجوں نےملک کے جنوب اور مغرب کے رہائشی علاقوں میں صدر بشار الاسد کی آمرانہ حکمرانی کےخلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر فائر کھول دیا، جِس میں کم از کم 19افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
شام کی ’نیشنل آرگنائزیشن فور ہیومن رائٹس‘ نے کہا ہے کہ بدھ کےروز الحرہ نامی جنوبی شہر میں ٹینکوں کی گولہ باری اورفائرنگ سے 13افراد ہلاک ہوئے، جِن میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔ حقوقِ انسانی کے کارکنوں نے کہا ہے کہ فوج نے درعا کے جنوبی قصبےکےقریب متعدد دیگر دیہات پر بھی حملے کیے جہاں مارچ کے وسط میں قومی سطح پر پھیلنے سے قبل بغاوت کا آغاز ہوگیا تھا۔
مغرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ ملک کے تیسرے بڑے شہر ہُمس کے باب امر کے مضافات میں شامی ٹینکوں اور نشانہ لے کر فائر کرنے والوں کی زد میں آکر کم از کم چھ افراد ہلاک ہوگئے۔ پیر کو شروع ہونے والے ایک سکیورٹی آپریشن کے بعد سے شامی افواج نے ہُمس کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
شام کے سرکاری خبررساں ادارے نے بتایا ہے کہ بدھ کے روز باب امر اوردرعا کے جنوبی علاقے میں شامی فوجیوں نے اُس کے بقول مسلح دہشت گرد گروہوں پر حملہ کیا۔ اُس نے بتایا ہے کہ لڑائی میں دو شامی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ پانچ زخمی ہوئے۔ خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ شامی فوجیوں نے درجنوں مسلح جنگجوؤں کو گرفتارکیا اور اُن سے ہتھیار اور اسلحہ برآمد کیا ہے۔
بدھ کو امریکی محکمہٴ خارجہ کی طرف سے شامی کارروائی پر کی جانے والی تنقید میں تیزی آئی اور دمشق پر وحشیانہ اور پُر تشدد اقدامات اختیارکرنے کا الزام عائد کیا ، جو بے گناہ شہریوں کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔
ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ شامی حکومت کو اِس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ شامی عوام کی جائز امنگوں کو پورا کرنے کے لیےصحیح سمت اختیار کرنے کی گنجائش کا دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔
حقوقِ انسانی کے شامی کارکنوں نے کہا ہے کہ شام بھر میں حکومت مخالف بغاوت کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد 600سے 700تک ہوگئی ہے۔ اعداد و شمار کی غیر جانب دار ذرائع سے تصدیق نہیں ہوپائی کیونکہ شام نے ملک میں زیادہ تر بین الاقوامی صحافیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔