حالیہ اندازوں کے مطابق، امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی 33 لاکھ ہے، جو تعداد امریکہ کی مجموعی آبادی کے ایک فی صد کے برابر ہے، جس میں سے 150000 شامی نژاد ہیں۔
اِن میں سے ہزاروں کی تعداد میں گریجوئیٹ ہیں، جنھوں نے طب، تکنیکی، انجنئرنگ اور کاروباری شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، جن کی آمدنی عام قومی شرح کی نسبت سے کہیں زیادہ ہے۔
امریکی مسلمانوں کے لیے تعلیم انتہائی اہم ہے۔ اعلیٰ تعلیم پوری برادری کے لیے فائدیمند ثابت ہوتی ہے۔
اپنے امریکی تشخص کو فروغ دینے کے لیے، پینسلوانیہ اسٹیٹ یونیورسٹی (جو امریکہ کی سب سے بڑی پبلک یونیورسٹی ہے) سے تعلق رکھنے والے 15 شامی امریکی طالب علموں نے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر انسانی قطار بنائی، جس کا مقصد فروغ پاتی ہوئی قومی مسلمان برادری کا اظہار تھا۔
زیکو خیاط پینسلوانیہ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہٴ سائنس میں تیسری جماعت کے طالب علم ہیں۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’اس کا مقصد یہ تھا کہ کیمپس میں مسلمان طالب علموٕں کے لیے ایک جگہ پیدا کرنا تھا اور یہ إحساس دلانا تھا کہ وہ کالج تعلیم میں دل جمعی کے ساتھ جت جائیں۔ لیکن، اس طرح کہ وہ مسلمانوں کے اقدار اور مفادات کے ساتھ پیوست ہوں‘‘۔
خیاط نے بتایا کہ داعش پیرس پر حملہ کرتی ہے اور دیگر مقامات پر دہشت گرد خطرات سامنے آتے ہیں، جب کہ حالیہ امریکی صدارتی انتخابی مہم میں لفظوں کی لے دے ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شامی امریکیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کیمپس کی گہما گہمی کا حصہ بنیں گے۔
پینسلوانیہ اسٹیٹ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو مشرقی امریکہ میں واقع ہے، جو پینسلوانیہ کالج میں قائم ہے۔ یونیورسٹی کی آبادی تقریباً 45000 ہے، جہاں مختلف مذہبی، نسلی اور ہر رنگ کے طالب علم پڑھتے ہیں۔ طالب عملوں کی تنظیم سے ایک فی صد مسلمان شاگرد وابستہ ہیں، جس میں شامی امریکی بھی شامل ہیں۔