شام کی فوج دمشق اور حلب کو ملانے والی سٹرٹیجک اہمیت کی مغربی شاہراہ کے ساتھ اپنے زیر قبضہ علاقہ کو توسیع دیتے ہوئے
صوبے حما کے قصبے طیب الإسلام کی جانب پیش قدمی کررہی ہے۔
فوج اور باغیوں کے ذرائع نے جمعرات کو بتایا کہ سرکاری فورسز کو روس کی بھاری فضائی مدد حاصل ہے۔
باغیوں کا کہنا ہے کہ طیب الإسلام کی جانب پیش قدمی کرنے والی شام کی سرکاری فورسز میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند بھی شامل ہو گئے ہیں۔
باغیوں نے پچھلے سال صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز کو شکست دے کر ان سے طیب الإسلام کا قبضہ چھین لیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق قریبی قصبوں حالفا اور اللطامنہ پر درجنوں فضائی حملے کیے گئے ہیں جن پر باغی پچھلے مہینے قابض ہوئے تھے۔
طیب الإسلام، حفا شہر سے تقربیاً 11 میل شمال میں واقع ہے۔
شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی شام میں قائم گروپ نے کہا ہے کہ کئی دنوں کے شديد گولہ باری اور جمعرات کی صبح شدید لڑائی کے بعد سرکاری فوج نے قصبے کا کنٹرول حاصل کرلیا ۔ اس لڑائی میں دونوں فریقوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
باغی ذرائع نے طیب الإسلام کے مغربی مضافات میں سرکاری فوج کے داخل ہونے کی تصدیق کی ہے۔
شام کے سرکاری میڈیا نے فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوج پیش قدمی کرتے ہوئے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کررہی ہے۔ تاہم سرکاری میڈیا نے کسی طرح کی کوئی تفصيل نہیں دی۔
لبنان میں شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے میڈیا یونٹ نے کہا ہے کہ فوج نے قصبے پر قبضہ کر لیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کے حامی عسکریت پسندوں نے باغیوں کی بیرونی چوکیوں پر توپ خانے اور راکٹوں سے حملے کیے ہیں۔
طیب الإسلام پر قبضے کے بعد شامی فوج کی نظریں شمالی قصبے صوران پر جمی ہیں جسے صوبائی صدر مقام حما میں داخل ہونے کے لیے گیٹ وے کی اہمیت حاصل ہے۔ اور اس کے بعد فوج کا اگلا ہدف موراک نامی قصبه ہے جو مغربی شام کو ملانے والی اہم شاہراہ پر واقع ہے۔