شام میں مغرب کی حمایت یافتہ حزب مخالف کا اتحاد جمعہ کو اس بات پر رائے شماری کر رہا ہے کہ آیا وہ آئندہ ہفتے جنیوا میں ہونے والی من بات چیت میں حصہ لے یا نہیں۔
استنبول میں ہونے والا حزب مخالف کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب امریکہ نے حزب مخالف پر کانفرنس میں شرکت کے لیے دباؤ ڈالا ہے جس کا مقصد ایک عبوری حکومت کا قیام ہے۔
امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری نے جمعرات کو کہا تھا کہ یہ بات چیت ’’حزب مخالف کے لیے شام کے عوام کے مقاصد اور انقلاب کے حصول کا بہترین موقع ہے۔‘‘
حزب مخالف کے رہنما اب تک بات چیت میں شرکت سے انکار کرتے رہے ہیں۔ صدر بشار الاسد کے مستعفی ہونے کے مطالبے کے پورے ہوئے بغیر یہ کانفرنس 22 جنوری کو ہونے جارہی ہے۔
شام کی حکومت اس کانفرنس میں شرکت پر آمادہ ہے لیکن اس نے بات چیت کے مرکزی نقطے یعنی عبوری حکومت کے قیام کی بجائے توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز کرنے کی کوشش کی تھی۔ حکومت شام کے باغیوں کے لیے دہشت گردوں کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ کو بھی شام میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تشویش ہے لیکن ان کے بقول اس بدامنی کا ذمہ دار دمشق ہے۔ اس بدامنی سے اب تک ایک لاکھ بیس ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی عبوری حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ ان کے نام پر تمام فریقین متفق ہوں۔
استنبول میں ہونے والا حزب مخالف کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب امریکہ نے حزب مخالف پر کانفرنس میں شرکت کے لیے دباؤ ڈالا ہے جس کا مقصد ایک عبوری حکومت کا قیام ہے۔
امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری نے جمعرات کو کہا تھا کہ یہ بات چیت ’’حزب مخالف کے لیے شام کے عوام کے مقاصد اور انقلاب کے حصول کا بہترین موقع ہے۔‘‘
حزب مخالف کے رہنما اب تک بات چیت میں شرکت سے انکار کرتے رہے ہیں۔ صدر بشار الاسد کے مستعفی ہونے کے مطالبے کے پورے ہوئے بغیر یہ کانفرنس 22 جنوری کو ہونے جارہی ہے۔
شام کی حکومت اس کانفرنس میں شرکت پر آمادہ ہے لیکن اس نے بات چیت کے مرکزی نقطے یعنی عبوری حکومت کے قیام کی بجائے توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز کرنے کی کوشش کی تھی۔ حکومت شام کے باغیوں کے لیے دہشت گردوں کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ کو بھی شام میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تشویش ہے لیکن ان کے بقول اس بدامنی کا ذمہ دار دمشق ہے۔ اس بدامنی سے اب تک ایک لاکھ بیس ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی عبوری حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ ان کے نام پر تمام فریقین متفق ہوں۔