شام کے انتخابات میں، حکام کے مطابق، صدر بشارالاسد نے ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ جس کے بعد وہ سات سال کی چوتھی مدت کے لیے شورش زدہ ملک کی قیادت کریں گے۔ ان انتخابات کو مغربی ممالک اور حزب اختلاف کی جانب سے غیر قانونی اور جعلی بیان کیا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق شام میں اٹھارہ ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ تاہم دس سال سے شورش کا سامنا کرنے والے ملک کے وہ علاقے جو باغیوں یا کرد قیادت والی فوجوں کے کنٹرول میں ہیں، وہاں ووٹ نہیں ڈالے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں کم از کم آٹھ ملین یعنی اسی لاکھ ووٹر رہ رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں اور وہ شام کے شمال مشرق اور شمال مغرب کے علاقوں میں مقیم ہیں۔
پانچ لاکھ سے زیادہ مہاجرین جو پڑوسی ملکوں میں آباد ہیں، وہ بھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے سکے۔
امریکہ اور یورپی یونین نے شام میں ہونے والے انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے یہ الیکشن تنازعے کے خاتمے کی متقاضی اقوام متحدہ کی قرارداروں کی پامالی ہیں۔ ان انتخابات کی بین الاقوامی نگرانی کا عمل بھی مفقود تھا اور یہ شام کے تمام شہریوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔
شام کی پارلیمنٹ کے سپیکر حمود صباغ نے بدھ کو ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بشارالاسد کو پچانوے اعشاریہ ایک فیصد ووٹ ملے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح اٹھتر اعشاریہ چھ فیصد رہی۔
بدھ کو انتخابی عمل سترہ گھنٹوں پر محیط رہا اور غیر جانبدار نگران بھی موجود نہیں تھے۔
بشرالاسد کو دو امیدواروں کی جانب سے علامتی مخالفت کا سامنا تھا۔ ایک سابق وزیر ہیں اور دوسرے حزب اختلاف کی ایک شخصیت۔
بشر الاسد کو ایسے وقت میں انتخابی کامیابی کا دعویٰ ہے جب جنگ زدہ شام کو اب بھی تنازعے کے سبب تباہی کا سامنا ہے۔ لڑائی اگرچہ کم ہوئی ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ ملک کے اندر معاشی بحران شدت اختیار کر رہا ہے جبکہ اسی فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اور مقامی کرنسی کی قدر تیزی سے نیچے گر رہی ہے۔
صدر اسد ، ان کے قریبی مصاحبین اور حکومتی عہدیداروں کو مغرب کی طرف سے بڑھتی ہوئی پابندیوں کا سامنا ہے۔ یورپی اور امریکی حکومتیں بشار الاسد اور ان کے ساتھیوں پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کرتی ہیں۔
دوسری جانب صدر بشارالاسد کی فتح پر دمشق میں رات کو جشن کا سماں رہا۔ ان کے حامیوں کی طرف سے بندوقوں سے فائرنگ اور آتشبازی سے رات کے وقت آسمان جگمگا اٹھا۔ دمشق کے بڑے چوکوں اور ساحلی شہر طارطوس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ وہ ملکی جھنڈا اور صدر اسد کی تصویریں تھامے رقص کرتے رہے۔ وہ نعرے لگاتے رہے جن کا مطلب تھا کہ ’’ ہم اپنے جان و دل سے بشار کا دفاع کرتے ہیں‘‘ ’’ ہم نے صرف تین چیزیں چن لی ہیں، خدا، شام اور بشار‘‘
دمشق اور طارطوس میں بشارالاسد کی حمایت میں نکلنے والوں میں سے تقریبا کسی نے بھی ماسک نہیں پہن رکھا تھا حالانکہ شام کا شمار بھی ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کرونا وائرس کے کیسوں میں تیزی آ رہی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، شام کے ان انتخابات سے ملک کے حالات میں تبدیلی کی کم ہی توقع ہے۔ بشارالاسد کے اتحادی روس اور ایران ان انتخابات کو جائز قرار دلوانے کے خواہشمند ہوں گے جو سال دو ہزار سے اقتدار میں موجود بشارالاسد کو سات سال کی ایک اور مدت اقتدار فراہم کرتے ہیں۔ تاہم ان کا پھر سے انتخاب مغرب کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کر سکتا ہے اور بشارالاسد کو روس، ایران اور چین جیسے حامیوں کے مزید قریب لے جا سکتا ہے۔