امریکی محکمۂ دفاع کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ شام میں تعینات امریکی فورسز کی توجہ دہشت گرد گروپ داعش کے باقی رہ جانے والے عناصر کے خلاف لڑائیوں پر مرکوز ہے اور وہ تیل کے کنوؤں کی حفاظت نہیں کر رہے جیسا کہ اس سے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے احکامات جاری کیے تھے۔
پینٹاگون کے ایک ترجمان جان کربی نے کہا کہ ایک امریکی فرم نے پچھلے سال شام کے شمالی حصے میں تیل کے شمال مشرقی میدانوں سے تیل نکالنے کے لیے کردوں سے معاہدہ کیا تھا، اس کا امریکی فوجیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ترجمان کربی نے کہا کہ اس علاقے میں موجود 900 امریکی فوجی اہل کاروں اور کنٹریکٹرز کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی پرائیویٹ کمپنی کو معاونت فراہم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں صرف اس وقت استثنیٰ حاصل ہے جب وہ موجودہ اختیار کے تحت عام شہریوں کی حفاظت کے لیے کارروائی کر رہے ہوں۔ جس سے امریکی فورسز کی تیل کے میدانوں کے گرد ان کی مسلسل موجودگی کی وضاحت ہو سکتی ہے۔
ترجمان نے اسلامک سٹیٹ یعنی داعش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمارا مشن وہاں داعش کو شکست دینے کی صلاحیت برقرار رکھنا ہے۔
یہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی سابق صدر ٹرمپ کی شام کی ایک عشرے کی خانہ جنگی سے متعلق پالیسی سے تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔
شام میں تیل کے مرکزی ذخائر ملک کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہیں، یہ وہ علاقہ ہے جہاں امریکہ کے اتحادی کردش سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا اثر و رسوخ ہے اور ان کا انحصار تیل کی آمدنی پر ہے۔
سن 2019 میں شام اور عراق میں امریکہ اور اس کی اتحادی فورسز کی جانب سے داعش کی خلافت کے خاتمے کے بعد صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ زیادہ تر امریکی فورسز ملک سے واپس بلا لی جائیں گی اور کچھ فوجی دستے وہاں تیل کی حفاظت کے لیے رہ جائیں گے۔
اس وقت امریکی عہدے داروں نے کہا تھا کہ وہاں کچھ فوجیوں کو اس لیے چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ تیل کے کنوئیں انتہاپسندوں کے قبضے نہ لگ جائیں۔
اس سے اگلے سال ایک امریکی آئل کمپنی ڈیلٹا کریسنٹ انرجی نے کردوں کے ساتھ تیل کی تلاش اور اسے نکالنے کا معاہدہ کر لیا تھا۔