واشنگٹن —
شام کے شمالی علاقے میں اسلام پرست باغیوں اور کردوں کے درمیان ہفتوں سےجاری لڑائی کے نتیجے میں یکایک ہزاروں کی تعداد میں شامی عراق کے کردستانی علاقے کی طرف بھاگ نکلے ہیں۔
جینوا میں خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیں کے ترجمان، ایندریان ایڈورڈس نے کہا ہے کہ جمعرات کے دِن دریائے دجلہ کا پُل پار کرکے عراقی کردستان کے پیشخبر قصبے میں 750 پناہ گزینوں کا ایک ریلہ وارد ہوا۔ پناہ گزینوں کے اِس گروپ کے بعد 5000سے 7000 افراد کی ایک اور کھیپ داخل ہوئی۔
پناہ گزینوں کی یہ کھیپ زیادہ تر خواتین، بچوں اور عمر رسیدہ افراد پر مشتمل ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ امدادی ادارے اور حکام اس مقام کی طرف خوراک اور پانی روانہ کر رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے اس ریلے سے قبل حالیہ ہفتوں کے دوران شامی کرد فورسز اور القاعدہ سے منسلک گروپ جبھة النصرہ کے درمیان شدید لڑائی کی خبریں موصول ہوتی رہی ہیں، جو شامی صدر بشار الاسد کی حامی فوجیوں سے بھی لڑ رہا ہے۔
عراق اور شام کے کرد راہنما، النصرہ میں کردوں کے قتل عام کی غیر مصدقہ رپورٹوں کی چھان بین کر رہے ہیں۔ شامی کرد شام کی خانہ جنگی سے زیادہ تر الگ تھلگ ہیں، اور اپنے معاملات اور قصبوں کی حفاظت خود ہی کرتے آئے ہیں۔
جمعرات کے روز پناہ گزینوں کےریلے کے اچانک نمودار ہونے سے قبل شام اور شمالی عراق کے درمیانی سرحد کو سختی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
کرد حکام کا کہنا ہے کہ شام کے کرد علاقے میں لڑائی عراقی کردستان کے لیے پناہ گزینوں کی بحرانی صورتِ حال کی غماز ہے۔
عراق پہلے سے ڈیڑھ لاکھ شامی پناہ گزینوں کو پناہ دیے ہوئے ہے، جن میں سے زیادہ تر عارضی بسیرہ کیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 15 لاکھ سے زائد لوگ ملک کی خانہ جنگی کے باعث بھاگ نکلے ہیں، جن کی پناہ گزیں کے طور پر رجسٹریشن ہونا ابھی باقی ہے۔ لبنان میں 700000کے قریب شامی پناہ گزیں موجود ہیں، جب کہ اردن میں یہ تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔
جینوا میں خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیں کے ترجمان، ایندریان ایڈورڈس نے کہا ہے کہ جمعرات کے دِن دریائے دجلہ کا پُل پار کرکے عراقی کردستان کے پیشخبر قصبے میں 750 پناہ گزینوں کا ایک ریلہ وارد ہوا۔ پناہ گزینوں کے اِس گروپ کے بعد 5000سے 7000 افراد کی ایک اور کھیپ داخل ہوئی۔
پناہ گزینوں کی یہ کھیپ زیادہ تر خواتین، بچوں اور عمر رسیدہ افراد پر مشتمل ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ امدادی ادارے اور حکام اس مقام کی طرف خوراک اور پانی روانہ کر رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے اس ریلے سے قبل حالیہ ہفتوں کے دوران شامی کرد فورسز اور القاعدہ سے منسلک گروپ جبھة النصرہ کے درمیان شدید لڑائی کی خبریں موصول ہوتی رہی ہیں، جو شامی صدر بشار الاسد کی حامی فوجیوں سے بھی لڑ رہا ہے۔
عراق اور شام کے کرد راہنما، النصرہ میں کردوں کے قتل عام کی غیر مصدقہ رپورٹوں کی چھان بین کر رہے ہیں۔ شامی کرد شام کی خانہ جنگی سے زیادہ تر الگ تھلگ ہیں، اور اپنے معاملات اور قصبوں کی حفاظت خود ہی کرتے آئے ہیں۔
جمعرات کے روز پناہ گزینوں کےریلے کے اچانک نمودار ہونے سے قبل شام اور شمالی عراق کے درمیانی سرحد کو سختی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
کرد حکام کا کہنا ہے کہ شام کے کرد علاقے میں لڑائی عراقی کردستان کے لیے پناہ گزینوں کی بحرانی صورتِ حال کی غماز ہے۔
عراق پہلے سے ڈیڑھ لاکھ شامی پناہ گزینوں کو پناہ دیے ہوئے ہے، جن میں سے زیادہ تر عارضی بسیرہ کیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 15 لاکھ سے زائد لوگ ملک کی خانہ جنگی کے باعث بھاگ نکلے ہیں، جن کی پناہ گزیں کے طور پر رجسٹریشن ہونا ابھی باقی ہے۔ لبنان میں 700000کے قریب شامی پناہ گزیں موجود ہیں، جب کہ اردن میں یہ تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔