رسائی کے لنکس

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ترکیہ سے شامی مہاجرین کی وطن واپسی کا آغاز


ترکیہ میں رہنے والا ایک شامی پناہ گزین بچہ، 9 دسمبر 2024 کو ہاتاے کے ضلع ریہانلی میں شام میں داخل ہونے سے پہلے کراس بارڈر گیٹ پر اپنے سامان کے ساتھ جانے کاانتظار کر رہا ہے۔
ترکیہ میں رہنے والا ایک شامی پناہ گزین بچہ، 9 دسمبر 2024 کو ہاتاے کے ضلع ریہانلی میں شام میں داخل ہونے سے پہلے کراس بارڈر گیٹ پر اپنے سامان کے ساتھ جانے کاانتظار کر رہا ہے۔

شام میں بشارالاسد کی حکومت کے ختم ہوتے ہی پڑوسی ملک ترکیہ میں مقیم شامی پناہ گزینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور بہت سے لوگ جشن منانے کے لیے استنبول اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر نکل آئے۔

اس کے ساتھ ہی ترکیہ سے سینکڑوں شامی مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹنا شروع ہوگئے ۔ پیر کے روز شام کے ایسے سینکڑوں شہری جو بے تابی سے اپنے گھروں کو واپسی کا انتظار کر رہے تھے، جنوبی ترکیہ میں ایک سرحدی کراسنگ پر جمع ہوگئے۔

HaberTurk ٹیلی ویژن کی ایک رپورٹ کے مطابق سرحدی چوکیوں پر ترک حکام نے صرف ان شامی پناہ گزینوں کو واپس لوٹنے کے لئے سرحدی چوکیوں تک جانے کی اجازت دی جن کے پاس خاطر خواہ دستاویزات تھیں۔

شام کی خانہ جنگی نے لاکھوں کو پناہ گزین بنا دیا

شام میں ایک دہائی سے زیادہ کی خانہ جنگی کے دوران، لاکھوں شامی شہریوں نے پڑوسی ممالک میں پناہ لی تھی جن میں سے تقریباً 30 لاکھ صرف ترکیہ میں ہیں۔

لاکھوں شامیوں نے ملک میں جاری خانہ جنگی کے باعث ترکی کے ساحل سے کشتوں میں سوار ہو کرایک ہلاکت خیز سفر میں یونان اور دیگر ملکوں میں پہنچنے کی کوشش بھی کی ہے۔

ترکی سے ربڑ کی کشیوں پر بیٹھ کر یونان کے جزیروں پر پہنچنے والےتارکین وطن کی تعداد میں 2015 کے موسم گرما میں بہت اضافہ ہوا ۔ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ تقریباً دوہزار افراد روزانہ سمندر عبور کرکے یونان کے مختلف جزائر پر پہنچے۔

ایک ستائیس سالہ شامی استاد ایشام نے حکومتوں سے مہاجروں کا یورپ میں داخلہ بند نہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’ہم انسان ہیں۔‘‘

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد وطن ؒوٹنے والے شامیوں میں غم و غصہ

سرحد عبور کرنے کے منتظر افراد میں شامی مہاجر مصطفیٰ سلطان بھی شامل تھے جو 2015 میں ترکیہ آئے تھے۔ انہوں نے جنگ اور اسد حکومت کے خاتمے ہر خدا کا شکرادا کرتے ہوئے بتایا،"میرا بڑا بھائی جیل میں تھا، میں نے 13 سال سے اسے نہیں دیکھا۔ اب جیلیں خالی کر دی گئی ہیں اس لیے میں یہ دیکھنے جا رہا ہوں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ ۔ میں دمشق جا کر دیکھوں گا۔ خدا کرے وہ زندہ ہو۔"

ان کی طرح ایک اور شامی مہاجر طاہر مقائد، نے بھی اسد خاندان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

"میں ابھی استنبول سے آیا ہوں اور دمشق جا رہا ہوں۔ سب کچھ ختم ہونے اور حکومت گرنے کے بعد میں گھر میں کام کرنے جا رہا ہوں۔ حافظ اسد کی روح پر خدا کی لعنت ۔ خدا کا شکر ہے، ان کا کچھ نہیں بچا۔"

بیشتر شامی تارکین وطن ترکیہ میں قیام کے دوران محنت مزدوری کرکے خاندانوں کا پیٹ پالتے رہے ہیں۔ ان میں محمد صالح بھی شامل ہیں،"میں ترکی کے جنوب میں اناطولیہ شہر میں پتھر کی دیوار وں کی تعمیر کا کام کر رہا تھا۔ خدا کا شکر ہے صدر بشار چلے گئے۔ میں حلب جا رہا ہوں، اب وہ محفوظ ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم واپس جا رہے ہیں۔"

فورم

XS
SM
MD
LG