|
نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت مشترکہ برکس کرنسی کی تشکیل کی کوشش نہیں کر رہا ہے، بلکہ اپنی مقامی کرنسی میں تجارت کو فروغ دینے کی کوششیں کر رہا ہے ۔ امریکہ کے آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشترکہ برکس کرنسی کے نظریے کی زبانی طور پر بھر پور مخالفت کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر برکس ممالک نے امریکی ڈالر کی جگہ اپنی کرنسی تیار کی تو ان کی مصنوعات پر 100 فیصد محصول عائد کیا جائے گا۔
برکس بلاک نے، جس کا آغاز چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ سے ہوا، اس سال ایران، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا اور مصر کو شامل کر کے خود کو مزید توسیع دے دی ہے۔
ٹرمپ نےٹروتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’ہمیں ان ممالک سے اس وعدے کی ضرورت ہے کہ وہ مضبوط امریکی ڈالر کے متبادل کےطور پر نہ تو کوئی نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے‘‘۔
روس پرسال 2022 میں امریکی قیادت میں پابندیوں کے بعد برکس کرنسی کی بات نے زور پکڑا تھا ۔اورحالیہ برسوں میں، جب سےمغرب اور چین کے درمیان اقتصادی اور سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ، روس اور چین نے بین الاقوامی تجارت میں ڈالر سے ہٹ کر متنوع کرنسیوں کی تلاش کی خواہش کا عوامی سطح پر اظہار کیا ہے ۔
تاہم فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشنز کے ڈائریکٹر جنرل اجے سہائے نےکہا ہے کہ نئی دہلی کا امریکی کرنسی سے دور جانے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے ۔
سہائے نے کہا، " ٹرمپ کی پوسٹ اس راستے پر احتیاط سے چلنے کا ایک پیشگی انتباہ ہے ۔ لیکن سر دست، یہ صرف ایک خیال ہے، اور ایک مشترکہ برکس کرنسی بنیادی طور پر بھارت کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔"
بھارتی دارالحکومت میں کام کرنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق،بھارت اور چین جیسے اتحاد میں شامل بڑے ملکوں کے اندرعدم اعتماد اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے ایسی کسی کرنسی کی تشکیل کا امکان نہیں ہے۔
کالنگا انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پیسیفک اسٹڈیز کے بانی چنتامنی مہاپاترا کہتے ہیں کہ " بھارت اس مخصوص اقدام کا حامی نہیں ہے ۔۔ مشترکہ کرنسی کسی کی بھی مدد نہیں کرے گی، صرف چین جیسے غالب ملکوں کا ہی آخر کار حکم چلےگا ، اس لیےکسی مشترکہ کرنسی کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا بہت مشکل ہے " ۔
مہاپاترا کے مطابق، ابھرتے ہوئے ممالک کا گروپ بھی اتنا زیادہ متنوع ہے کہ اس کے لیے کسی مسابقتی کرنسی کو معاشی طور پر قابل عمل بنانا آسان نہیں ہوگا۔
مہاپاترا نے کہا ،"یورپی یونین کے برعکس، ہمارے (برکس ممالک)پاس کوئی مشترکہ منڈی نہیں ہے ۔ہمارے پاس کوئی مشترکہ تجارتی پالیسی نہیں ہے۔ ہمارے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے‘‘ ۔
تاہم اس وقت برکس کے کئی رکن ملکوں نے امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، جو دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد سے دنیا کی غالب کرنسی رہی ہے۔ برکس ممالک میں دنیا کی کل آبادی کا لگ بھگ چالیس فیصد حصہ مقیم ہے اور عالمی مجموعی پیداوار میں اس کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے ۔
اکتوبر میں روس کے شہر کازان میں منعقدہ ایک سربراہی اجلاس میں، برکس ممالک نے امریکی ڈالر کی بجائے مقامی کرنسیوں میں تجارت کرنے کی کوششوں کو فروغ دینے پر اتفاق کیا اور کہا کہ وہ گروپ کے اندر بینکنگ نیٹ ورکس کو مضبوط کریں گے تاکہ اپنی کرنسیوں میں ادائیگیوں کو آسان بنایا جا سکے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ "مقامی کرنسیوں میں تجارت اور سرحد پارآسان طریقے سےادائیگیاں ہمارے اقتصادی تعاون کو مستحکم کریں گی۔"
نئی دہلی میں کونسل فار سوشل ڈیویلپمنٹ کے ایک سینئر پروفیسر بسواجیت دھر کہتے ہیں کہ ،بھارت ، جس نے تجارت کے لیے روپے کو زیادہ کثرت سے استعمال کرنے کی حمایت کے لیے گزشتہ سال ایک نئی غیر ملکی تجارتی پالیسی اپنائی تھی، ایسے سترہ ملکوں کی نشاندہی کر چکا ہے جن کے ساتھ وہ روپے یا کسی دوسرے ملک کی کرنسی کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
ان ملکوں میں روس بھی شامل ہے۔ بھارت، جو روس کے خلاف امریکی پابندیوں میں شامل نہیں ہوا ہے، ماسکو سے اپنے خام تیل کی درآمدات کے لیے روپے میں ادائیگی کررہا ہے ۔ اگرچہ تجارت میں نمایاں اضافے کی صور ت میں مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دہر کے بقول اگر بھارت روس سے بہت زیادہ تیل خرید رہا ہے اور روپے میں ادائیگی کر رہا ہے، تو روس کو نہیں معلوم کہ وہ اپنے پاس موجود روپے کے اسٹاک کا کیا کرے گا ۔
انہوں نے کہا کہ "پابندیوں کی وجہ سےبھارتی تجارتی کمپنیاں روس کو تیل فروخت کرنے کے حوالے سے محتاط ہیں " ۔
روس کے علاوہ دوسرے ملک مثلاً ملائیشیا، کینیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی روپے میں تجارت کو آسان بنانے پر اتفاق کر چکے ہیں ۔ تاہم ایسی کوششیں بہت معمولی ہیں، اور بھارت کی زیادہ تر بین الاقوامی تجارت پر اب بھی ڈالر چھایا ہوا ہے ۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سبرامنیم نے کہا ہے کہ امریکی کرنسی سے ہٹنا نئی دہلی کی اقتصادی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔
اکتوبر میں واشنگٹن میں کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں ڈالر کی قیمتوں میں کمی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ،"ہم نے کبھی بھی ڈالر کو فعال طور پر ہدف نہیں بنایا ہے ۔ یہ نہ تو ہماری اقتصادی پالیسی کا اور نہ ہی ہماری سیاسی یا اسٹریٹیجک پالیسی کا حصہ ہے۔ لیکن روس کا بالواسطہ حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ جب کچھ شراکت داروں کے ساتھ ڈالر میں تجارت کرنا مشکل ہو گیا تو بھارت کو متبادل راستہ تلاش کرنا پڑا۔
گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو کے اجے سری واستو کہتے ہیں کہ "یہ روس کو ہدف بنانےوالے امریکی اقدامات تھے جنہوں نے ملکوں کو ڈالر کے لئےکوئی نئے متبادل یا طریقے تلاش کرنے پر مجبور کیا۔ ان کا مقصد ڈالر کی پوزیشن کو ختم کرنا نہیں تھا۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے برکس کرنسی اپنانے والے ممالک سے آنے والی مصنوعات پر 100 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی ایسی ممکنہ نئی کرنسی کے خیال کو "غیر حقیقی اور عملی سے زیادہ علامتی" بناتی ہے۔
فورم