شام کے سیاسی کارکنان نے بدھ کے روز اطلاع دی ہے کہ دمشق کے قریب ہونے والی باغیوں کی گولہ باری اور سرکاری فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 36 افراد ہلاک ہوئے۔
تشدد کی یہ نئی کارروائیاں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کی شامی دارالحکومت میں آمد سے چند ہی گھنٹے قبل واقع ہوئیں۔ بات چیت کے لیے، وہ سیدھے صدر بشار الاسد سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے، جس کا مقصد برسوں سے جاری شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ایران کی نئی حکمت عملی پر گفتگو کرنا ہے، جو اس منصوبے کو اقوام متحدہ کے سامنے لے جانا چاہتا ہے۔
برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے بتایا ہے کہ باغیوں کی جانب سے یہ گولہ باری صبح شروع ہوئی۔
صورت حال پر نگاہ رکھنے والے اِس گروپ نے کہا ہے کہ اس کے جواب میں، سرکاری لڑاکا جیٹ طیاروں نے دمشق کے مضافات پر فضائی کارروائیاں کیں، جو باغیوں کے زیر تسلط ہیں، جن حملوں میں 31 افراد ہلاک جب کہ 120 سے زائد زخمی ہوئے۔
شام کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے خبررساں ادارے، سنا نے دمشق میں بھاری دہانے سے گولہ باری اور راکیٹ فائر کا الزام ’دہشت گردوں‘ پر دیا ہے۔
یہ تنازع جس کا آغاز مارچ 2011ء میں پُرامن احتجاج کی صورت میں ہوا، خانہ جنگی میں تبدیل ہوا، جس میں اب تک 240000 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ایک کروڑ 15 لاکھ افراد اپنے گھربار چھوڑ چکے ہیں۔
اس سے قبل، لبنان میں قیام کے دوران، ظریف نے ایرانی امن منصوبے کے بارے میں گفتگو کی، جہاں اُنھوں نے حزب اللہ کے شدت پسند گروپ کے رہنما سے ملاقات کی۔
حزب اللہ کی لڑاکا فورس شام کی افواج میں شامل ہوتی رہی ہے، جن میں صوبہ ادلب بھی شامل ہے جہاں بدھ کو زبادانی کے قصبے کے فوا اور فریہ کے دو دیہات میں حکومت کی حامی افواج نے 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا آغاز کیا۔
آبزرویٹری نے کہا ہے کہ دونوں فریق لبنان کی سرحد کے قریب والے علاقے، زبادانی سے باغیوں کے انخلا کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں، ساتھ ہی اِن دیہات کا تسلط خالی کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔