ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ساتواں عالمی کپ اب ناک آوٹ مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ پاکستان، انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں بڑے میچوں کی تیاریاں مکمل کر چکی ہیں۔ اور اب دیکھنا یہ ہے کہ فائنل میں کون سی دو ٹیمیں پہنچتی ہیں۔
چاروں سیمی فائنلسٹس پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو چار میں سے تین ٹیمیں عالمی رینکنگ میں پہلے چار نمبروں پر ہیں۔ آسٹریلیا واحد ٹیم ہے جو ابتدائی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہونے کے باوجود ٹاپ فور میں شامل ہوئی ہے۔
موسٹ فیورٹ انڈیا پول میچوں میں پاکستان اور نیوزی لینڈ سے ابتدائی دونوں میچ ہارنے کے بعد سنبھل نہ سکی اور ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی جبکہ جنوبی افریقہ کی ٹیم جو رینکنگ میں چوتھے نمبر پر تھی، روایتی طور پر قسمت کے فیصلے کا شکار ہوئی اور اچھا پرفارم کرنے کے باوجود سیمی فائنل تک نہ پہنچ سکی۔ اس نے پانچ میں سے چار میچوں میں کامیابی حاصل کی لیکن رن ریٹ میں معمولی کمی کے سبب گروپ ون میں تیسرے نمبر پر رہی۔
چاروں ٹیموں کے مداح اپنی اپنی ٹیموں کے لیے ورلڈ کپ جیتنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ گراونڈ پر ٹیمیں کیسا پرفارم کر رہی ہیں، ٹیموں کا کمبی نیشن کیسا ہے اور کس ٹیم کے کیا چانسز ہیں، اس پر وائس آف امریکہ نے بات کی ہے پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر، سابق کوچ اور سابق چیف سلیلکٹر محسن حسن خان اور عمان کی قومی ٹیم کی طرف سے ورلڈ کپ کھیلنے والے بلال خان سے۔
ناک آوٹ مرحلے میں کون کتنا فیورٹ ہے؟
ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کا دوسرا سیمی فائنل پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے درمیان گیارہ نومبر کو دبئی کرکٹ گراونڈ میں کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان نے گروپ ٹو میں پانچوں میچ جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ آسٹریلیا نے پول میچوں میں ایک میں شکست کا سامنا کیا اور بہتر رن ریٹ پر سیمی فائنل میں جگہ بنائی ہے۔
دونوں ٹیموں کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اب تک دونوں ٹیموں کے درمیان آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپس کے دوران چھ میچ کھیلے گئے ہیں جن میں سے تین پاکستان نے اور تین ہی آسٹریلیا نے جیت رکھے ہیں۔ پاکستان کا بہترین سکور 191 اور آسٹریلیا کا بہترین اسکور 197 ہے۔ آسٹریلیا کا پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ میں کم سے کم اسکور 117 جبکہ پاکستان کا کم سے کم اسکور 149 ہے۔
ٹی ٹوئنٹی میں مجموعی طور پر پاکستان کا آسٹریلیا کے خلاف ریکارڈ اچھا ہے۔ گرین شرٹس نے کل 23 میچوں میں سے 13 میں کامبابی حاصل کی جبکہ آسٹریلیا کی ٹیم نو بار فتحیاب ہوئی۔
پاکستان کی ٹیم ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں ورلڈ رینکنگ میں دوسرے اور آسٹریلیا کی ٹیم چھٹے نمبر پر ہے۔ پاکستان کا ہتھیار کیا ہو گا؟
کرکٹر بلال خان کہتے ہیں کہ ابتدائی اوورز میں ہی وکٹ لینا بہت اہم ہے اور پاکستان کا اٹیک بالخصوص شاہین آفریدی شروع میں ہی اگر وکٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے لیے یہ چیز بہت کارگر ثابت ہو گی۔ پاکستان کا ٹاپ آرڈر اچھا کھیل رہا ہے لیکن اس کی اصل ہتھیار فاسٹ باولرز ہی ہوں گے۔
بلال خان کے مطابق، چونکہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں بہت کرکٹ کھیلی ہے، اسے یہ تجربہ سیمی فائنل میں کام آئے گا۔
محسن حسن خان کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے کپتان بابر اعظم کا وکٹ پر ٹھہرنا اور ایک اچھے سٹرائیک ریٹ سے رن بنانا، دونوں اوپنرز کا اچھا سٹینڈ فراہم کرنا ہی پاکستان کا ہتھیار ہے۔ بابر اعظم ان کے بقول اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں اور انہوں نے پانچ میں سے چار اننگز میں ففٹیز سکور کی ہیں لیکن اب ضرورت ہے کہ وہ ناک آوٹ مرحلے میں بھی اس کارکردگی کو جاری رکھیں۔ اگر کوئی بھی ایک بلے باز ایک اینڈ روک لیتا ہے اور دوسرے اینڈ سے رنز بنتے رہتے ہیں تو ٹیم کے لیے بہت کارگر رہتا ہے
ٹیم میں تبدیلی کیا ہونی چاہیے؟
محسن حسن خان تجویز کرتے ہیں کہ ٹیم میں مزید ایک سپنر کی شمولیت پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ فخر زمان اچھی فارم میں نظر نہیں آ رہے، ان کی جگہ اگر لیفٹ آرم سپنیر محمد نواز کو شامل کر لیا جائے تو بہت سود مند ہو گا۔ وہ بلے بازی بھی اچھی کر لیتے ہیں اور ایک فائدہ ٹیم کو یہ ہو گا کہ محمد حفیظ، شعیب ملک اور محمد آصف جو اچھی فارم میں نظر آ رہے ہیں ان کو ایک نمبر اوپر آ کر کھیلنے کا موقع ملے گا اور ان میں سے کوئی ایک بھی بلے باز اگر سیٹ ہو کر اپنی نیچرل گیم کھیل جاتا ہے تو ٹیم بڑا اسکور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
بلال خان کے خیال میں اس موقع پر ٹیم میں تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ فخر زمان ان کے الفاظ میں بڑے میچ کا پلئر ہے اور وہ پریشر میں اچھا پرفارم کرتا ہے۔ ٹیم کا کمبی نیشن بنا ہوا ہے، اسے قائم رکھنا چاہیے۔ جس طرح حسن علی کو مسلسل کھلا کر اپنی فارم بحال کرنے کا موقع دیا گیا ہے، اسی طرح فخر کا بھی سیمی فائنل میں ہونا بڑا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
انگلینڈ بمقابلہ نیوزی لینڈ: فیورٹ کون ہے؟
پہلا سیمی فائنل دس نومبر کو ابو ظہبی میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان کھیلا جا رہا ہے۔ یہ وہی دو ٹیمیں ہیں جو ورلڈ کپ دو ہزار انیس کے فائنل میں مد مقابل تھیں اور سپر اوور میں انتہائی سنسنی خیز میچ کے بعد فیصلہ انگلینڈ کے حق میں ہوا تھا، جو آج بھی کیوی ٹیم کے کئی مداح دل سے قبول نہیں کر پائے ہیں۔
دونوں ٹیمیں جب ایک اور بڑے میچ کے لیے میدان میں اتریں گی تو نہ چاہتے ہوئے بھی 2019 میں ون ڈے ورلڈ کپ کا فائنل ان کے ذہنوں میں ہو گا۔ انگلینڈ کی خواہش ہو گی کہ وہ فاتح ہو کر ثابت کرے کہ اسی کا پلہ بھاری تھا اور بھاری ہے۔ جبکہ نیوزی لینڈ کی ٹیم چاہیے گی کہ وہ اس مقابلے میں فتح یاب ہو کر نہ صرف فائنل میں جگہ بنائے بلکہ پچھلے بڑے میچ میں شکست کا کے داغ بھی دھل جائیں۔
دونوں ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی میں اس سیمی فائنل سے قبل21 مرتبہ ایک دوسرے کے مد مقابل آ چکی ہیں۔ انگلینڈ کا ریکارڈ زیادہ اچھا ہے جس نے 12میچوں میں نیوزی لینڈ کو شکست دی جبکہ کیویز نے انگلش ٹیم کو سات مرتبہ ہرایا اور ایک میچ ٹائی ہوا۔ اس اعتبار سے انگلینڈ کی فتح کا تناسب 57.14 بنتا ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں انگلینڈ کی ٹیم پہلے اور نیوزی لینڈ کی ٹیم چوتھے نمبر پر ہے۔
محسن حسن خان کے مطابق نیوزی لینڈ کی ٹیم میں مارٹن گپٹل اور کپتان ولیمسن کے علاوہ زیادہ بڑے نام شاید کم ہوں لیکن ٹیم جس سپرٹ سے کھیلتی ہے وہ قابل رشک ہے۔ ان کی فیلڈنگ اور باولنگ میں ورائیٹی نیوزی لینڈ کی ٹیم کا اہم ہتھیار ہو گا۔
دوسری جانب اگرچہ انگلینڈ کو جیسن رائے کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کا نقصان ہو گا لیکن ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں ان کا متبادل اگر بیس پچیس رنز تیز رفتاری سے بنا لیتا ہے تو زیادہ کمی محسوس نہیں ہو گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انگلینڈ کی ٹیم بہت اچھے یونٹ کی طرح کھیل رہی ہے، لیکن اس کا فاسٹ باولنگ کا شعبہ زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتا۔ معین علی اور عادل رشید نے سپن کے شعبے کو بڑے عرصے سے بخوبی سنبھال رکھا ہے۔
محسن خان کے نزدیک دونوں ٹیمیں پچھلے کئی برسوں سے بہت پروفیشنل اور کلینیکل کرکٹ کھیل رہی ہیں لیکن اگر کسی کو اس میچ میں فیورٹ قرار دینا ہو تو انگلینڈ کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انگلینڈ کی جیت کے پچپن فیصد اور نیوزی لینڈ کی فتح کے پنتالیس فیصد امکانات ہیں۔
عمان کے کرکٹر بلال خان،نیوزی لینڈ کو فیورٹ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ٹیم نے پورے ایونٹ میں جس طرح کی پروفیشنل کرکٹ کھیلی ہے اور ٹیم جس طرح جذبے سے کھیل رہی ہے امکان ہے کہ وہ سیمی فائنل میں انگلینڈ کو شکست دے دے اور فائنل پاکستان کے مدمقابل ہو
فائنل کن ٹیموں کے درمیان ہو سکتا ہے؟
بلال خان کے خیال میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے درمیان فائنل دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ لیکن محسن حسن خان کی رائے مختلف ہے۔
محسن خان کہتے ہیں کہ دل تو چاہتا ہے کہ پاکستان کی ٹیم ہی فائنل کھیلے لیکن ایک کرکٹر کی حیثیت سے جب پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں پر نظر ڈالتا ہوں تو آسٹریلیا کی ٹیم مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ ان کی فاسٹ باولنگ کا شعہ ہو، سپن اٹیک ہو دونوں وکٹ کے پیچھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں عماد وسیم اور شاداب دونوں اچھے باولر ہیں لیکن دونوں کو وکٹ ٹیکر نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح آسٹریلیا کی ٹیم کو فیلڈنگ میں ایڈوانٹج حاصل ہو گا۔ وہ پندرہ سے بیس رنز فیلڈنگ میں بچا لیتے ہیں جو عام طور پر ٹی ٹوئنٹی میں فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔
تاہم، وہ پاکستان کی ٹیم کو مشورہ دیتے ہیں کہ ہوٹل سے گراونڈ کی طرف نکلیں تو ذہن میں سے شکست کو نکال دیں۔ اپنی بہترین صلاحیتیوں کا مظاہرہ کریں اور اپنا بیسٹ دینے کی کوشش کریں۔
محسن خان فائنل میں دو روایتی حریفوں انگلینڈ اور آسٹریلیا کو مد مقابل دیکھتے ہیں۔