رسائی کے لنکس

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ: بھارت کی افغانستان کے خلاف کامیابی کو 'فکس' کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟


اس میچ کو شائقین کی جانب سے 'فرینڈلی میچ' اور افغانستان کی ٹیم کو 'فرینڈلی اپوزیشن' قرار دیا جا رہا ہے جو ان سے ایک شاندار کارکردگی کی توقع کر رہے تھے۔
اس میچ کو شائقین کی جانب سے 'فرینڈلی میچ' اور افغانستان کی ٹیم کو 'فرینڈلی اپوزیشن' قرار دیا جا رہا ہے جو ان سے ایک شاندار کارکردگی کی توقع کر رہے تھے۔

بھارت اور افغانستان کے درمیان بدھ کو کھیلے گئے 'اہم میچ' میں بھارت کی جیت پر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

اس میچ کو شائقین نے سوشل میڈیا پر 'فرینڈلی میچ' اور افغانستان کی ٹیم کو 'فرینڈلی اپوزیشن' قرار دیا ہے کیوں کہ شائقین افغانستان سے ایک شاندار کارکردگی کی توقع کر رہے تھے۔

کسی نے 'ویل پیڈ انڈیا' کا ٹوئٹ کر کے میچ پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تو کوئی میچ کو ’فِکس‘ قرار دے رہا ہے۔

یہاں تک کے پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے بیٹے اواب علوی نے بھی میچ کے نتیجے کو سمجھ سے باہر کہہ دیا۔

سیاسی تجزیہ کار زید حامد نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک ایسی ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کے خیال میں بھارتی کپتان وراٹ کوہلی مخالف کپتان محمد نبی کو ٹاس جیت کر بالنگ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

تاہم مقامی صحافی فیضان لاکھانی نے زید حامد کے ٹوئٹ کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹاس کے وقت مائیک اور کیمرے پر ریکارڈ ہونے والی آواز افغانستان کے کپتان محمد نبی کی ہے نہ کہ وراٹ کوہلی کی۔

یاد رہے کہ ٹاس کے بعد کپتان مائیک پر آ کر اعلان کرنے سے قبل ایک دوسرے کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہیں اور محمد نبی نے بھی ایسا ہی کیا۔

مبصرین کے مطابق بھارت کی ٹیم کے افغانستان کے مقابلے میں میچ ہارنے کے امکانات بظاہر کم ہی تھے البتہ شائقین کرکٹ کو شاید افغانستان سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر 'فکسڈ'، 'شیم' اور 'ویل پیڈ انڈیا' کے ساتھ ساتھ افغانستان کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد نبی اور اسٹار بالر راشد خان کا نام بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔

شائقین میچ کو 'فکس' کیوں قرار دے رہے ہیں؟

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے رواں ایڈیشن میں بھارت اور افغانستان کے میچ سے قبل دونوں ٹیموں کے مداحوں کو یقین تھا کہ ان کی ٹیم بہترین کارکردگی دکھائے گی۔

ایک طرف بھارت کی ٹیم تھی جسے سیمی فائنل کی دوڑ میں رہنے کے لیے یہ میچ بڑے مارجن سے جیتنا تھا جب کہ دوسری طرف اس میچ میں فتح افغانستان کو سیمی فائنل کے قریب پہنچا دیتی۔

مسلسل دو میچوں میں شکست کے بعد بھارت کی ٹیم کو ایونٹ سے باہر ہو جانے کا خطرہ تھا اور اسی لیے ان کے لیے یہ میچ 'ڈو اور ڈائی' سے کم نہ تھا۔

لیکن ٹاس کے بعد سے لے کر میچ کے اختتام تک افغانستان کی ٹیم کی کارکردگی اس طرح سے نظر نہیں آئی جس طرح انہوں نے اسکاٹ لینڈ اور نمیبیا کو شکست دی جب کہ یہی ٹیم پاکستان کے خلاف میچ میں تقریباً جیتنے کی پوزیشن میں آ گئی تھی۔

ٹوئٹر پر ایک صارف کا کہنا تھا کہ وکٹ پر گھاس نہ ہونے کے باوجود افغانستان کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد نبی کا ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ، ان فارم بالر مجیب الرحمٰن کو نہ کھلانا، بار بار بھارتی بلے بازوں کو ہلکی گیندیں کرانا، گیند کو جان بوجھ کر باؤنڈری کے پار بھیجنا اور میچ میں بد دلی سے شرکت کرنا۔ سب اس مقابلے کو مشکوک بناتا ہے۔

افغانستان کی ٹیم کی بالنگ پر بھارت نے ایونٹ کا سب سے بڑا اسکور بنایا جب کہ بیٹنگ میں بھی افغانستان کی ٹیم اس معیار کی کارکردگی نہ دکھا سکی جو اس نے ایونٹ کے دیگر میچز میں دکھائی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ شائقین کرکٹ کو بھارت کی جیت سے زیادہ افغانستان کی ہار پر تعجب ہوا۔

فرینڈلی میچ کا ایک اور قصہ

چھبیس اکتوبر 1994 کو گوجرانوالہ میں پاکستان، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلی جانے والی تین ملکی سیریز کا ایک اہم میچ خراب آؤٹ فیلڈ کی وجہ سے ختم کردیا گیا تھا۔

اس میچ میں پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کو مدِمقابل ہونا تھا لیکن میچ ختم کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا۔ لیکن شائقین کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ٹیموں نے ایک 'نمائشی' میچ کھیلا تھا۔

اس 'فرینڈلی میچ' میں دونوں ٹیموں کو 15، 15 اوورز دیے گئے تھے تاکہ وہ شائقین کو محظوظ کر سکیں۔ مہمان ٹیم 15ویں اوور میں 123 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔

اس میچ میں انضمام الحق نے فاسٹ بالنگ کر کے آسٹریلوی کپتان مارک ٹیلر کو بھی پریشان کیا تھا جب کہ راشد لطیف نے وکٹ کیپنگ کے بجائے فیلڈنگ کرنے کو ترجیح دی تھی۔

آسٹریلوی اننگز کی خاص بات مشتاق احمد کی بالنگ تھی جنہوں نے سابق پاکستانی آل راؤنڈ مدثر نذر، انگلش بالر باب ولس، ویسٹ انڈین پیسر میلکم مارشل اور ہم وطن وسیم اکرم سمیت کئی مایہ ناز بالرز کے ایکشن میں بالنگ کرتے ہوئے تین وکٹیں حاصل کیں تھیں۔

جواب میں پاکستان ٹیم کی جانب سے بیٹنگ کا آغاز وسیم اکرم اور وقار یونس نے کیا تھا جو بلے سے نہیں بلکہ نئی گیند سے اننگز کا آغاز کرتے تھے۔ ٹیم کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کر کے پہلے ٹیل اینڈرز پھر مڈل اور آخر میں اوپنرز کو بھیجا گیا تھا۔

وسیم اکرم کے 36 رنز پر شائقین کو اتنا تعجب نہیں ہوا تھا جتنا عاقب جاوید کے 43 رنز پر ہوا، جس میں شین وارن کو مارے گئے دو چھکے بھی شامل تھے۔

وہ اور بات تھی کہ عاقب جاوید نے آسٹریلوی لیگ اسپنر کو اشارہ کیا تھا کہ وہ انہیں فل ٹاس پھینکیں تا کہ وہ چھکا مار سکیں۔

پاکستانی اوپنر عامر سہیل کو کھیل کے آخری لمحات میں جب بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا تو انہوں نے بجائے بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے کے دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کر کے سب کو حیران کر دیا۔

میزبان ٹیم نے مطلوبہ ہدف چودہویں اوور میں اس وقت حاصل کر لیا تھا جب عامر سہیل نے ریویرس سوئپ پر وننگ شاٹ مار کر ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

اس میچ کا نہ تو کوئی آفیشل اسٹیٹس تھا اور نہ ہی ریکارڈ بک میں اس نے کوئی جگہ بنائی تھی۔

البتہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس میچ کے بارے میں شائقین اور دونوں ٹیموں کو پہلے ہی سے پتا تھا کہ یہ مذاق ہو رہا ہے۔

ورلڈ کپ کرکٹ میں کھیلے گئے 'حیران کن میچوں' کی کہانی

یہ پہلا موقع نہیں کہ ورلڈ کپ مقابلوں میں کسی میچ پر شائقین کو شکوک و شبہات ہوئے ہوں۔

زمبابوے کا ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے سے قبل 1983 میں آسٹریلیا اور 1992 میں انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کو 50 اوور کے ورلڈ کپ میں ہرانے کا معاملہ ہو یا بھارت کا تیسرے ورلڈ کپ کے فائنل میں دو بار کی دفاعی چیمپین ویسٹ انڈیز کو شکست دینا۔ ہر اپ سیٹ میچ کو شائقین نے مشکوک نظر سے دیکھا۔

سن 1996 کے ورلڈ کپ میں بھی کئی میچز یک طرفہ رہے۔ جیسے کینیا کا ویسٹ انڈیز کو صرف 93 رنز پر آؤٹ کردینا یا پھر سیمی فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں میزبان ٹیم بھارت کو شکست کا سامنا کرنا۔

لیکن پاکستانی شائقین 25 برس بعد بھی بنگلور کا کوارٹر فائنل نہیں بھول پائے جس میں شکست کے ساتھ ہی ٹیم کے کپتان کا ایونٹ میں سفر تمام ہوا تھا۔

پہلے تو کپتان وسیم اکرم نے میچ سے چند لمحے قبل دستبردار ہو کر مداحوں کو مایوس اور اپنے ساتھیوں کو حیران کیا تھا پھر عامر سہیل کی کپتانی اور بلے بازوں اور بالرز کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے گرین شرٹس کو شکست ہوئی تھی۔

تین برس بعد انگلینڈ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ میں اچھی فارم میں اور اچھے کمبی نیشن کے باوجود پاکستان ٹیم کو پہلے بنگلہ دیش اور پھر بھارت سے سپر ایٹ مرحلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پاکستان کے کپتان کا ٹاس جیت کر اوور کاسٹ کنڈیشنز میں پہلے بیٹنگ کرنے کے فیصلے سے لے کر ٹیم سلیکشن تک، شائقین نے تمام فیصلوں پر انگلیاں اٹھائیں تھیں اور وہی کھلاڑی جو بنگلور میں نہیں چل سکے تھے ان پر دوبارہ انحصار کرنا پاکستان کی ٹیم کو کافی مہنگا پڑا تھا۔

سن 2003 کا کرکٹ ورلڈ کپ پاکستانی شائقین کے لیے یادگار نہ ہو لیکن کینیا کی ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی آج تک کسی کی سمجھ نہیں آئی۔

ایسوسی ایٹ سائیڈ نے ایونٹ کے دوران سابق چیمپئن سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے کو شکست دے کر لاسٹ فور میں جگہ بنائی تھی جہاں اسے بھارت نے شکست دے کر فائنل کے لیے کوالی فائی کیا تھا۔

سن 2007 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پہلے آئرلینڈ نے پاکستان کو ہرا کر ایونٹ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کیا تو بنگلہ دیش نے بھارت کو پہلے ہی راؤنڈ میں شکست دے کر ایونٹ سے باہر کیا۔ بعدازاں اسی بنگلہ دیشی سائیڈ نے جنوبی افریقہ کو بھی اپ سیٹ شکست دے کر سب کو حیران کر دیا تھا۔

اسی سال ہی پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلا گیا تھا جس میں کئی مقابلوں کے نتائج نے شائقین کو کافی حیران کیا تھا۔

ایونٹ کے ایک میچ میں زمبابوے نے اس وقت کی ون ڈے چیمپئن ٹیم آسٹریلیا کو شکست دی تو کسی کو بھی یقین نہیں آیا۔

دو برس بعد میزبان انگلینڈ کو نیدرلینڈز کی ٹیم نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد ہرایا تھا۔ جب کہ 2014 میں ہانگ کانگ کے ہاتھوں بنگلہ دیش کو شکست ہوئی تھی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2016 میں افغانستان کے ہاتھوں ویسٹ انڈیز ٹیم کو شکست ہوئی تھی جس نے آگے جا کر ایونٹ جیتنے کے ساتھ ساتھ دو بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG