تائیوان نے ایک بار پھر چین کی حکمرانی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چین کی 'ون چائنا' پالیسی کو مسترد کرتا ہے۔ لیکن اس معاملے پر چین کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی تیار ہے۔
البتہ بیجنگ کا اصرار ہے کہ تائیوان چین میں ضم ہو کر رہے گا۔
تائیوان کی صدر سائی اِنگ وین کا کہنا ہے کہ تائیوان خود مختار ملک ہے لہذٰا اس کی سالمیت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔
تائیوان کی صدر کے بیان پر چین کا کہنا ہے کہ تائیوان کا چین میں انضمام ہو کر رہے گا۔ لہذٰا تائیوان کی آزادی کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔
عہدِ صدارت کے لیے مسلسل دوسری اور آخری بار منتخب ہونے پر اپنے خطاب میں تائیوان کی صدر کا کہنا تھا کہ چین اور تائیوان کے تعلقات میں تاریخی موڑ آ گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو ایسا قابلِ عمل راستہ تلاش کرنا ہو گا جس سے اختلافات ختم ہوں اور اتفاق رائے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے۔
سائی اِنگ وین اور ان کی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی نے جنوری میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
اپنی انتخابی مہم میں اُنہوں نے چین کے تائیوان پر دعوے کے خلاف سخت موقف اپنایا تھا۔
چین کا موقف رہا ہے کہ تائیوان اُس کا ایک صوبہ ہے جسے وہ ہر صورت ضم کرے گا۔ چاہے اس کے لیے اسے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
تائیوان کی صدر نے کہا کہ وہ جمہوریت، امن اور مذاکرات پر یقین رکھتی ہیں۔ لیکن چین کی جانب سے تائیوان کے حقِ حکمرانی اور خود مُختاری کو نیچا دکھانی کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔
چین چاہتا ہے کہ ہانگ کانگ کی طرح تائیوان میں بھی 'ون چائنا' پالیسی نافذ کرے۔ ہانگ کانگ برطانیہ کی کالونی تھا جسے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ نے 1997 میں چین کے حوالے کیا تھا۔
چین اور ہانگ کانگ کے درمیان معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کو خود مختار حیثیت حاصل ہے لیکن وہ چین کا حقِ حکمرانی بھی تسلیم کرتا ہے۔
چین نے ایسی ہی پیش کش تائیوان کو بھی کی ہے جسے تائیوان کی لگ بھگ تمام سیاسی جماعتیں مسترد کرتی رہی ہیں۔
چین کے تائیوان سے متعلق اُمور کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ چین ہر صورت صدر شی جن پنگ کی 'ون چائنا' پالیسی پر عمل کرے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کے پاس قومی خود مختاری، علاقائی سالمیت کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت ہے۔
چین تائیوان کی خود مختاری کے اصرار کو علیحدگی کے طور پر دیکھتا ہے۔ تائیوان کی صدر کا کہنا ہے کہ تائیوان ایک آزاد ریاست ہے اور اس کا سرکاری نام جمہوریہ چین ہے۔ لہذٰا وہ بیجنگ کے زیرِ اقتدار عوامی جمہوریہ چین کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔
جنوری میں سائی اِنگ وین کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد چین نے تائیوان کے قریب جنگی مشقیں شروع کی تھیں جب کہ چین کے بحری جہازوں کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
صدر کا کہنا ہے کہ چین اور تائیوان کے درمیان امن کے لیے تائیوان ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔ وہ امن کی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے چین کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی تیار ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن تائیوان کو اپنا حصہ بنانے کے اُصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
تائیوان کا چین سے یہ بھی گلہ رہا ہے کہ اُس نے اسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رکنیت سے محروم رکھنے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کیا۔
امریکہ اس معاملے پر تائیوان کا حمایتی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار تائیوان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر چکے ہیں۔ امریکہ تائیوان کو اسلحہ بھی فروخت کرتا رہا ہے۔
تائیوان کا معاملہ بھی چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا باعث بنتا رہا ہے۔ چین بارہا امریکہ کو تنبیہ کر چکا ہے کہ وہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دوسری مدت کے لیے صدارت کا حلف اُٹھانے پر تائیوان کی صدر کو مبارکباد بھی دی تھی۔