افغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کا باضابطہ آٹھواں دور ہفتے کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوا۔ شریک دونوں فریقوں نے عندیہ دیا ہے کہ اس اہم دور میں معاہدہ طے پا سکتا ہے، جس کی مدد سے تاریخ کی سب سے طویل امریکی جنگ ختم ہو گی۔
امریکی مذاکرات کار، زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’طالبان اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ معاہدہ چاہتے ہیں اور امریکہ بھی ایک اچھے معاہدے کے لیے تیار ہے‘‘۔
تاہم، اب بھی امریکہ اور طالبان کی جانب سے سمجھوتے کے مشتملات سے متعلق کئی غلط فہمیاں حائل لگتی ہیں۔
طالبان اسے ایک ایسا سمجھوتا خیال کرتے ہیں جس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہو، خاص طور پر امریکی افواج کا۔ اس کے عوض، یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ کسی دیگر ملک میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال نہیں ہوگی۔
ادھر، خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغان امن مذاکرات میں شامل اہم سینئر حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات کا یہ سب سے اہم دور ہے۔
سینئر حکام کے بقول، امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آٹھویں دور کا اختتام 13 اگست کو ہوگا اور اس سے قبل امن معاہدہ متوقع ہے جو جنگ زدہ ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کرے گا۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد بھی طالبان رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے جمعے کی رات دوحہ پہنچے ہیں۔
زلمے خلیل زاد نے واضح کیا کہ امن معاہدہ ہوگا نا کہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کا معاہدہ، ہم ایک ایسے امن معاہدے کی تلاش میں ہیں جو انخلا کو ممکن بنا سکے۔
امریکی نمائندہ خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ ہماری افغانستان میں موجودگی خاص حالات کے تحت ہے اور (غیر ملکی فورسز کے ) انخلا میں بھی ان حالات کو مدنظر رکھا جائے گا۔
یاد رہے امریکہ اور طالبان کے درمیان اس سے قبل بات چیت کے سات دور ہو چکے ہیں جن میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا اور ایک محفوظ افغانستا ن کے معاملات زیر بحث رہے ہیں اور دونوں فریقین پیش رفت کا بتا چکے ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان کے قطر میں واقع سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین بھی قبل ازیں اس توقع کا اظہار کر چکے ہیں کہ امن مذاکرات کے تازہ اور ان کے بقول فیصلہ کُن مرحلے کے دوران غیر ملکی افواج کے انخلا کے حوالے سے فریقین کے درمیان سمجھوتہ طے پا جا ئے گا۔
یاد رہے کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے طالبان سے بات چیت شروع کرنے سے پہلے یکم اور دو اگست کو اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں افغان امن عمل میں ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق اس موقع پر خلیل زاد نے پاکستانی حکام سے ہونے والی بات چیت میں افغان امن عمل میں ہونے والی مثبت پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے امن عمل کے لیے آئندہ کے اقدامات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔
خلیل زاد نے کہا کہ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے دورے کے دوران اس معاملے پر بات کی کہ مستحکم امن کے لیے پاکستان اور افغانستان کی طرف سے قابل اعتماد یقین دہانی کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ افغان دھڑوں کے مابین ایک جامع معاہدے کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کسی ملک کے خلاف اُن کی سرزمین استعمال نہ ہو تاکہ علاقائی اقتصادی رابطوں اور ترقی کو فروغ مل سکے۔
خلیل زاد کے بقول حالات سازگار ہیں اور دونوں ملکوں کو ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔