رسائی کے لنکس

افغان حکومت سے براہ راست بات چیت نہیں ہو گی، طالبان


طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار ملا عبدالغنی برادر اور سیاسی دفتر کے سربراہ محمد عباس سٹانکزئی ماسکو میں امن بات چیت کے دوران۔ (فائل فوٹو)
طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار ملا عبدالغنی برادر اور سیاسی دفتر کے سربراہ محمد عباس سٹانکزئی ماسکو میں امن بات چیت کے دوران۔ (فائل فوٹو)

افغان طالبان نے آج اتوار کے روز کہا ہے کہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں ہو گی۔

طالبان نے اس سلسلے میں افغانستان کے سینئر وزیر عبدالسلام رحیمی کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ افغان حکومت آئندہ دو ہفتے میں طالبان کے ساتھ کسی یورپی ملک میں براہ راست بات چیت شروع کرنے کے بارے میں پرامید ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس بات چیت کیلئے افغان حکومت کا وفد 15 ارکان پر مشتمل ہو گا۔

رائیٹرز کے مطابق قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ افغانستان سے فوجی انخلا کے معاہدے سے قبل افغان حکومت کے ساتھ بات چیت نہیں ہو گی۔

اس سے قبل امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتہ طے پا جانے کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات جاری ہیں، جس کے اب تک سات ادوار ہو چکے ہیں۔

امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کی یہ خواہش ہے کہ طالبان افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے براہ راست افغان حکومت سے مذاکرات کریں، تاہم طالبان اس سے انکار کرتے آئے ہیں۔

طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ہے، لہذٰا اس سے مذاکرات کرنا بے سود ہے۔

رواں ماہ سات اور آٹھ جولائی کو دوحہ میں بین الافغان کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔
رواں ماہ سات اور آٹھ جولائی کو دوحہ میں بین الافغان کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے زلمے خلیل زاد کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد ہی مذاکرات کا کوئی نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کے دیرینہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ کابل انتظامیہ سے بطور حکومت مذاکرات نہیں کریں گے۔

ماہر افغان امور طاہر خان کہتے ہیں کہ افغان حکومت کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہئے جس سے دوحہ امن مذاکرات پر منفی اثرات اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہوں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بات اب سب پر واضح ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا دور دوحہ میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات کے بعد شروع ہو گا جس کے لئے کابل کو انتظار کرنا چاہئے۔

طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے آئندہ دور میں کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے کے کافی امکانات ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور اگلے ہفتے سے قطر میں شروع ہو گا۔ امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ یکم ستمبر سے قبل طے پا جائے۔

سفارتی ذرائع سے اے ایف پی کو ملنے والی معلومات کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات سات اگست سے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں متوقع ہیں۔

اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے لیے فریقین کو طالبان کی جانب سے گرین سگنل ملنے کا انتظار ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران کہا تھا کہ وہ طالبان سے ملاقات کر کے انہیں افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ کریں گے۔

طالبان نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ پاکستان کی قیادت کے ساتھ ملاقات میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

ماہر افغان امور طاہر خان کہتے ہیں کہ افغان حکومت کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہئے جس سے دوحہ امن مذاکرات پر منفی اثرات اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہوں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بات اب سب پر واضح ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا دور دوحہ میں جاری امریکہ طالبان مذاکارت کے بعد شروع ہوگا جس کے لئے کابل کو انتظار کرنا چاہئے۔

طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے آئندہ دور میں کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے کے کافی امکانات ہیں۔

XS
SM
MD
LG