رسائی کے لنکس

افغانستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی: 'فیصلے پر کوئی حیرت نہیں ہے'


افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے ملک میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کے اعلان کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

بدھ کو ایک فیصلے میں طالبان کے وزیرِ انصاف عبدالحکیم شرعی نے سیاسی جماعتوں پر پابندی کا اعلان کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسی سرگرمیاں شریعت کے خلاف ہیں۔ یہ جماعتیں قومی مفاد میں کام نہیں کرتیں نہ ہی عوام ان کی تعریف کرتے ہیں۔

دو سال قبل طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے وقت وزارتِ انصاف میں 70 سے زیادہ چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ تھیں۔

سینئر صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ افغانستان کی سیاسی جماعتیں 2004 سے لے کر 2019 تک صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ طالبان محض ایک مزاحمتی گروپ نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور مذہبی جماعت بھی ہے۔ لہذٰا اُنہیں دیگر طبقات کو بھی سیاسی حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔

لندن میں مقیم سینئر صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ اُنہیں طالبان کے اس فیصلے پر کوئی حیرت نہیں ہے کیوں کہ دو برس سے افغانستان میں سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ اگست 2021 میں طالبان کے کنٹرول کے بعد سے ہی سیاسی جماعتیں غیر فعال ہیں۔

اُن کے بقول جو سیاسی رہنما کابل یا دیگر شہروں میں پھنس چکے ہیں، وہ عملاً اپنے گھروں میں ایک طرح سے نظر بند ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار عبدالوحید خان کہتے ہیں کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران سابق صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت ملی۔

عبدالوحید خان کہتے ہیں کہ حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ کے علاوہ گلبدین حکمت یار، حامد گیلانی، سینیٹ کے سابق چیئرمین عبدالہادی، سابق افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے پوتے میرویس ظاہر، سابق صدر سردار محمد داؤد کا بھتیجا نادر نعیم سمیت دیگر سیاسی رہنما افغانستان میں ہی موجود ہیں۔

طالبان کے دو سال، افغان عوام کے تاثرات
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:55 0:00

عبدالوحید خان کے مطابق ویسے تو طالبان حکومت کی پالیسیوں پر اندرون اور بیرون ملک سیاسی و سماجی اور قبائلی رہنما اور دانش ور تنقید کرتے رہے ہیں۔ مگر احمد مسعود کی نیشنل فرنٹ نے باقاعدہ مسلح مزاحمت کا اعلان اگست 2021 کے اواخر میں کیا تھا۔

احمد مسعود کی مسلح مزاحمت کا ساتھ دینے والوں کی اکثریت غیر پشتون تاجک برادری سے ہے۔

سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ دراصل طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔

طاہر خان کے بقول افغانستان میں لوگوں کی اکثریت طالبان کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے۔

خیال رہے کہ طالبان حکومت کے وزرا اس تاثر کو رد کرتے رہے ہیں۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ طالبان کے کئی اہم رہنما بھی سینئر قیادت کے بعض فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین پر پابندیوں جیسے فیصلے شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے اس فیصلے سے عالمی برادری کے طالبان سے متعلق خدشات میں مزید اضافہ ہو گا۔

خیال رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک کا طالبان سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ وہ ملک میں تمام طبقات پر مشتمل جامع حکومت قائم کریں۔

فورم

XS
SM
MD
LG