امریکہ کے محکمۂ دفاع (پینٹاگان) اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے حکام کے مطابق وہ اس درخواست پر غور کر رہے ہیں کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے مشتبہ ملزم اور ان کے ساتھیوں کو سزائے موت کا سامنا نہ کرنا پڑے تاکہ ان کے ایک دہائی سے زائد طویل مقدمے کی کارروائی کو ختم کیا جا سکے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق پینٹاگان اور ایف بی آئی نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں ہلاک ہونے والے تین ہزار افراد میں سے کچھ کے خاندانوں کو ایک خط میں بھیجے جانے والے نوٹس میں یہ تجویز دی گئی ہے۔
ملٹری پراسیکیوٹرز اور دفاعی وکلا کی جانب سے اس کیس کے لیے کسی مذاکراتی حل کی تلاش شروع کرنے کے ڈھائی سال بعد یہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔
استغاثہ کے وکلا کیوبا میں قائم امریکہ کے گوانتاناموبے حراستی مرکز میں قید خالد شیخ محمد اور دیگر چار افراد کے خلاف مقدمے میں بار بار کے التوا اور ان قانونی موشگافیوں کی وجہ سے پریشان ہیں جو خاص طور پر ان افراد کے سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کی حراست میں ابتدائی دنوں میں تفتیش میں تشدد سے متعلق ہیں۔
امریکہ کے نائن الیون کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ خالد شیخ محمد نے ہی امریکہ پر اس طرح کے حملے کا تصور القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے سامنے پیش کیا تھا اور انہوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کی منصوبہ بندی کی اجازت حاصل کی تھی۔
چار دیگرافراد پر الزام ہے کہ انہوں نے مختلف طریقوں سے جہاز ہائی جیک کرنے والے ملزمان کی مدد کی تھی۔
ٹرائل کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی
خط میں کہا گیا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر کا دفتر بات چیت کر رہا ہے اور مقدمے سے پہلے کے سجھوتے کرنے پر غور کر رہا ہے۔
خط میں خاندانوں کو بتایا گیا ہےکہ اگرچہ کسی بھی درخواست کے معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی گئی اور ہو سکتا ہے کہ اسے کبھی بھی حتمی شکل نہ دی جائے۔ یہ ممکن ہے کہ اس معاملے میں مقدمے سے پہلے کا سمجھوتہ سزائے موت کے امکان کو ختم کر دے۔
دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے لگ بھگ تین ہزار افراد کے کچھ عزیزوں نے اس امکان پر غم و غصے کا اظہار کیاہے۔
فوجی استغاثہ نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ان کے خیالات کو مدِ نظر رکھیں گے اور انہیں ان فوجی حکام کے سامنے پیش کریں گے جو درخواست کے کسی سمجھوتے کو قبول کرنے کا حتمی فیصلہ کریں گے۔
یکم اگست ارسال کیا گیا خط کچھ خاندانوں کے افراد کو رواں ہفتے ہی موصول ہوا تھا۔
اس خط میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ پیر تک ایف بی آئی کے متاثرین کی سروسز کے ڈویژن کو اس طرح کے معاہدے کے امکان کے بارے میں کسی بھی تبصرے یا سوال کے ساتھ جواب دیں۔ ایف بی آئی نے بدھ تک اس خط پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
القاعدہ کے دہشت گردوں نے 11 ستمبر 2001 کو مسافروں سے بھرے چار طیاروں کو ہائی جیک کر لیا تھاجس کے بعد ان میں سے دو سے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور ایک سے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے قریب محکمۂ دفاع کی عمارت پینٹاگان کو نشانہ بنایا گیا۔ چوتھا طیارہ واشنگٹن ڈی سی کی طرف گامزن تھا لیکن عملے کے ارکان اور مسافروں کے کاک پٹ پر دھاوا بولنے کی کوشش کی وجہ سے یہ جہاز پنسلوانیا میں گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں لگ بھگ تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
ان حملوں کے نتیجے میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی جس میں افغانستان پر امریکی حملہ اور طویل جنگ شامل ہیں۔ افغانستان میں ہی القاعدہ کی بنیاد تھی جہاں مبینہ طور پر اسامہ بن لادن موجود تھے جب کہ عراق میں بھی القاعدہ موجود تھی جس کا حملوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
جم رچز کے بیٹے فائر فائٹر تھے وہ نائن الیون کے حملوں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جم رچز 2009 میں پری ٹرائل کی سماعت کے لیے گئے تھے۔
وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں کہ یہ کیس 14 سال بعد بھی حل نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پیر کو جب انہوں نے حکومت کا خط کھولا تو ایک تلخ مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر تھی۔
"آپ کو اس پر یقین کیسے ہو سکتا ہے؟"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس اپ ڈیٹ سے ہمیں تھوڑی سی امید ملتی ہے۔ لیکن انصاف اب بھی دور نظر آتا ہے۔
"چاہے وہ کتنے ہی خطوط ارسال کر دیں جب تک میں اسے نہ دیکھوں اس پر یقین نہیں کروں گا۔"
امریکہ کے شہر نیو یارک کے سابق ڈپٹی فائر چیف رچز مزید کہتے ہیں کہ وہ شروع میں ملٹری ٹربیونلز کے استعمال کے حق میں تھے لیکن اب محسوس کرتے ہیں کہ یہ عمل ناکام ہو رہا ہے ۔
وہ اب تجویز کرتے ہیں کہ نائن الیون کے ملزمان پر سویلین عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
اوباما انتظامیہ نے ایک موقع پر ایسا کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن کچھ متاثرین کے رشتہ داروں اور کانگریس کے ارکان کی مخالفت اور شہر کے عہدیداروں کے سیکیورٹی کے اخراجات کے بارے میں خدشات کی وجہ سے اس خیال کو ترک کر دیا گیا۔
رچز نے کہا کہ حملوں کی 22 ویں برسی قریب آ رہی ہے۔
انہوں نے حراست میں موجود افراد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "وہ لوگ ابھی تک زندہ ہیں۔ ہمارے بچے مر چکے ہیں۔"
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے مواد لیا گیا ہے۔