ویب ڈیسک۔ افغانستان کی طالبان انتظامیہ اور سینئر قیادت نے برطانوی شہزادے ہیری کو ان کے اس اعتراف پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ جب وہ امریکی اتحاد کی افواج میں ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے تو انہوں نے 25 افغان باشندوں کو ہلاک کیا تھا۔ شہزادہ ہیری نے یہ اعتراف اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’ سپئر‘ میں کیا ہے۔
ہیری نے ہلاک کیے جانے والے 25 افراد کو شطرنج کے مہروں سے تعبیر کر تے ہوئے کہا ہےکہ انہوں نے ان مہروں کو شطرنج کی بساط سے ہٹا دیا کیونکہ وہ برے لوگ تھے۔
اپنی کتاب ’’سپئر‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے کہ جب میں نے خود کو جنگ کی تپش اور تذبذب میں گھرا ہوا پایا تو میں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ پچیس انسان تھے۔
اپنی کتاب میں ہیری لکھتے ہیں کہ ’’وہ شطرنج کے مہرے تھے جنہیں جنگ کی بساط سے ہٹا دیا گیا۔ برے لوگوں کا اس سے خاتمہ کر دیا گیا پیشتر اس کے کہ وہ اچھے لوگوں کو مار دیتے‘‘۔
طالبان کی افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے اس اعتراف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’افغانستان پر مغربی قبضہ حقیقتاً انسانی تاریخ کا ایک افسوس ناک لمحہ ہے اور شہزادہ ہیری کے تبصرے قابض افواج کے ہاتھوں افغان باشندوں کو پہنچنے والے المیے کا ایک آئینہ ہیں ، ان بے گناہوں کو انہوں نے کسی جوابدہی کے بغیر قتل کردیا۔‘‘
پرنس ہیری کی کتاب ’’اسپئر‘‘ 10 جنوری کو دنیا بھر میں لانچ ہونے جا رہی ہے، مگر اس سے چند دن پہلے اسپین میں اس کے ہسپانوی ورژن کی فروخت شروع ہو گئی ہے۔ کتاب میں پرنس ہیری اور ان کے بھائی پرنس ولیم کے درمیان اختلافات، منشیات کےاستعمال اور افغانستان میں اپنی فوجی خدمات سے متعلق انکشافات کیے گئے ہیں۔
38 سالہ پرنس ہیری نے افغانستان میں اپنے قیام کے دو ادوار کا ذکر کیا ہے۔انہوں نے سن 2007 اور 2008 میں فارورڈ ائیر کنٹرولر اور پھر 2012 میں لڑاکا اپاچی ہیلی کاپٹر کے کو پائلٹ گنر کے طور پر خدمات سرانجام دیں ، جس کےدوران انہوں نےفوجی مشن کی انجام دہی میں متعدد لوگوں کو ہلاک کرنے کااعتراف کیا ہے۔
پرنس ہیری کی کتاب میں 25 افراد کی ہلاکتوں کے اعتراف پر طالبان کے ایک سینئر عہدے دار انس حقانی نے بھی اپنے ردعمل میں سلسلے وار ٹوئٹس میں کہا ہے کہ ان کے ہاتھوں مارے جانے والے انسان تھے نہ کہ شطرنج کے مہرے۔
’’مسٹر ہیری! جن کو تم نے مارا وہ شطرنج کے مہرے نہیں تھے، وہ انسان تھے۔ ان کے خاندان تھے جو ان کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے ۔ افغانوں کے قاتلوں میں سے بہت سے لوگوں میں آپ جیسی شائستگی نہیں ہے کہ وہ اپنے ضمیر کو ظاہر کریں اور اپنے جنگی جرائم کا اعتراف کریں۔ سچ وہی ہے جو آپ نے کہا ہے۔"
انس حقانی نے لکھا ہے،"ہمارے معصوم لوگ آپ کے فوجیوں اور سیاسی لیڈروں کے لیے شطرنج کے مہرے تھے۔ پھر بھی، آپ کو سفید اور سیاہ ’’بساط‘‘ کے اس ’’کھیل‘‘ میں شکست ہوئی۔ مجھے امید نہیں ہے کہ آئی سی سی آپ کو طلب کرے گی یا انسانی حقوق کے کارکن آپ کی مذمت کریں گے، کیونکہ آپ کی جانب وہ بہرے اور اندھے ہیں۔ لیکن امید ہے کہ انسانی تاریخ میں ان مظالم کو یاد رکھا جائے گا‘‘۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پرنس ہیری نے انسانیت کے خلاف جرم کیا ہے۔ وہ (افغان)اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے اور آپ حملہ آور تھے۔ ان کا مقصد جائز تھا۔ وہ اپنے لوگوں کے ہیرو تھے ۔ لیکن آپ ان کے دشمن تھے‘‘۔
شاہین کا مزید کہنا تھا کہ ’’ انسانیت کے خلاف جرائم کی عدالت کو پرنس سے جواب دہی کرنی چاہیے‘‘۔
ایک اور ٹویٹ کے مطابق ایک ریٹائرڈ برطانوی فوجی افسر کرنل رچرڈ کیمپ نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ افغانستان میں 25 طالبان جنگجوؤں کو مارنے کے بارے میں شہزادہ ہیری کا "غلط فیصلے " پر مبنی بیان برطانوی فوجیوں پر حملےکے لئے اشتعل انگیزی کر سکتا ہے۔
برطانیہ کی وزارت دفاع کے ترجمان نے پرنس ہیری کے تبصروں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا، ’’ہم سکیورٹی وجوہات پر آپریشنل تفصیلات پر تبصرہ نہیں کرتے۔‘‘
پرنس ہیری کے نمائندوں نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
برطانیہ کے کنگ چارلس اور پرنس ولیم کے ترجمان نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔)