افغانستان میں طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ تجارت نے دورۂ پاکستان کے دوران بے دخل ہونے والے افغان باشندوں کی جائیداد اور اثاثوں کی منتقلی کے معاملے پر پاکستانی حکام سے تبادلۂ خیال کیا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر الحاج نور الدین منگل کو وفد کے ہمراہ پاکستان پہنچے تھے۔
اسلام آباد میں افغان سفارت خانے اور پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان نے الگ الگ سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ وفد نے منگل کو اسلام آباد میں نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلان ی سے بھی ملاقات کی۔
طالبان حکومت کے وفد نے ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کیا ہے جب پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے۔
طالبان حکام نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ایسے افغان باشندے جو سالہا سال سے پاکستان میں مقیم ہیں، اُن کے اثاثوں کی منتقلی اور جائیداد کے حوالے سے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی تارکینِ وطن کی ملک بدری کی پالیسی کا اطلاق تمام غیر ملکی تارکینِ وطن پر ہو رہا ہے۔ لیکن ان میں اکثریت افغان شہریوں کی ہے جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 17 لاکھ بتائی جاتی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان کے وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے طالبان حکومت کے وفد سے ملاقات کے دوران کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اجتماعی کارروائی سے علاقائی تجارت اور رابطوں میں بہتری آ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر تک کی مہلت دی تھی۔ یہ فیصلہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستان کے سول و فوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔
پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں۔
طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی جب کہ افغان شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا تھا۔
افغانستان میں طالبان حکومت نے کہا تھا کہ پاکستان میں امن کی ذمے داری افغانستان پر عائد نہیں ہوتی۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) میں کہا تھا کہ پاکستان اپنی ناکامیوں کی ذمے داری افغانستان پر نہ ڈالے۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔
افغان باشندوں کے اثاثوں کا معاملہ موضوعِ بحث
اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ پاکستانی حکام سے ملاقات میں افغان مہاجرین کی جائیداد کی ان کے وطن منتقلی اور دیگر متعلقہ امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
غیر قانونی تارکینِ وطن کی واپسی کی سینیٹ میں گونج
دوسری جانب غیر قانونی تارکینِ وطن کی وطن واپسی کا معاملہ پیر کو پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ میں بھی موضوعِ بحث رہا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار نے سینیٹ میں اپنے خطاب میں کہا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو پاکستان میں رہنے کا حق نہیں، لیکن ان کی وطن واپسی عزت و احترام کے ساتھ ہونی چاہیے۔
ان کے بقول واپس جانے والے مہاجرین کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اگر اپنے وطن واپس جا رہے ہیں تو اپنی جائیداد بھی ساتھ لے جائیں۔
'واپس جانے والے ساتھ کتنی رقم لیجا سکتے ہیں'
پاکستان کے نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان واپس جانے والے غیر قانونی تارکینِ وطن اپنے ساتھ 50 ہزار پاکستانی روپے لے جا سکتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن میں سے بعض کے اثاثوں کی مالیت کے ابھی تک مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
پشاور میں مقیم ایک افغان سیاسی و سماجی رہنما حاجی حیات اللہ نے وائس اف امریکہ کے شمیم شاہد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان من مقیم افغان تارکینِ وطن ہتھ ریڑھی سے لے کر کارخانوں تک کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
انھوں نے پاکستان میں کاروبار میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے تاہم حیات اللہ نے کہا کہ کہا کہ ان جائیدادوں اور املاک کی مکمل تفصیلات تو نہیں ہیں، مگر یہ اربوں روپوں کی ہیں۔
دوسری جانب ایک اعلی سرکاری عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان باشندوں کی املاک اور جائیدادوں کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔
سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ زیادہ پریشان وہ افغان دکان دار اور تاجر ہیں جن کی دکانیں اور کاروبار لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے مالیت کے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک لوگوں نے اپنی دکانیں اونے پونے داموں فروخت کرنا شروع کر دی ہیں۔
فورم