کابل میں خریداری کرتی ہوئی ریاضی کی ٹیچر عروسہ اور اس کی دوست خوفزدہ اور گشت پر مامور طالبان پر نظر رکھے ہوئے تھیں کیونکہ اگرچہ انھوں نے بڑی سی شال اوڑھ رکھی تھی اور براون گاون پہن رکھاتھا، لیکن یہ طالبان کے تازہ ترین فرمان کے مطابق نہیں تھا۔
عروسہ نے، جنھوں نے اپنا اصلی نام ظاہر نہیں کیا، طالبان کا وضع کردہ وہ برقعہ نہیں پہناہوا تھا جو طالبان حکومت نے ہفتے ہی کو خواتین کے پبلک مقامات کے لیے نئے ڈریس کوڈ کے طور پر جاری کیا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی صرف آنکھیں نظر آنی چاہئیں۔
طالبان کے سخت گیر رہنما ہبت اللہ اخونذادہ کے حکم نامے میں یہاں تک کہا گیا کہ جب تک ضروری نہ ہوخواتین کو اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔اور اس ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے مرد رشتہ دار وں کو سزا ہوگی۔
یہ حکم نامہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے بڑا دھچکہ قرار دیا جارہاہے ۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے دو دہائیوں سے خواتین کو نسبتا آزادی حاصل تھی۔
اخونزادہ طالبان کے روایتی گڑھ جنوبی صوبہ قندہار سے کم ہی باہر نکلتے ہیں، وہ1990ء کی دہائی کی حکومت کے اس سخت گیر گروپ کے حامی ہیں جنھوں نے اس وقت لڑکیوں اور خواتین کےاسکول جانے ، کام کرنے اور عوامی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کردی تھی۔
طالبان کے بانی ملا عمر کی طرح اخونزادہ نے بھی سخت گیر اسلام کو نافذ کیا ہواہےجس میں مذہب کو قدیم قبائلی روایات کے ساتھ خلط ملط کردیاگیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اخونزادہ نے قبائلی روایات کو اپنایا ہےجس میں لڑکیاں بلوغت کی عمر میں شادی کرتی ہیں اور گھروں سے کم ہی نکلتی ہیں اور اسے ایک مذہبی تقاضہ قرار دے دیا ہے۔
طالبان ان دنوں عملیت پسند اور سخت گیر گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ،وہ باغی قوت سے حکومت میں تبدیلی کے مرحلے سے گزررہے ہیں،ساتھ ہی وہ شدید معاشی بحران سے نمٹنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔اور مغربی ممالک سے خود کو تسلیم کرانے اور ان سے امداد حاصل کرنے کی ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں، کیونکہ وہ نمائندہ حکومت قائم کرنے اور خواتین کے حقوق کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اب تک دونوں گروپوں کے درمیان کھلے عام محاذ آرائی دیکھنے میں نہیں آئی ، اس کے باوجود ان میں یہ تقسیم مارچ میں نئے تعلیمی سال کے موقع پر اس وقت مزید گہری ہوگئی جب اخونزادہ نے آخری لمحے میں فیصلہ جاری کیا کہ لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، جبکہ سینئر طالبان حکام نے صحافیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت ہوگی۔
اخونزادہ نے زور دیا کہ بڑی عمر کی لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایک ممتاز افغان نےجوقائدین سے ملتے رہتے ہیں اور اندرونی معاملے سے واقف ہیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابینہ کے ایک سینئر رکن نے ایک اجلاس میں اخونزادہ کے خیالات پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
ایک سابق حکومتی مشیر توریک فرہادی نے کہاکہ ان کا خیال ہے کہ طالبان رہنماوں نے عوام کے سامنے نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انھیں خدشہ ہےکہ تقسیم کا کوئی تصور ان کی حکمرانی کو کمزور بناسکتا ہے۔فرہادی نے کہا کہ قیادت بہت سے معاملات پر نظر ہی نہیں ڈالتی لیکن وہ سب جانتے ہیں کہ اگر وہ سب کو اکھٹا نہ رکھ سکے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔اس صورت میں ان کے درمیان تصادم شروع ہوسکتا ہے۔
فرہادی نے کہا کہ اسی لیے بڑوں نے ایسے ناقابل قبول فیصلے آنے پر بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی قیمت افغانستان کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر ہنگامہ اٹھ کھڑا ہونے کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔
کچھ عملیت پسند بڑی خاموشی سے صورتحال کے حل میں لگے ہیں تاکہ سخت گیروں کے احکامات میں نرمی لائی جاسکے لیکن مارچ کے بعد سے طاقتور طالبان لیڈرو ں میں بھی خاموشی سے ان چیزوں کو نظرانداز کرنے کا رجحان کم ہوا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں سراج حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی نے جو طاقتور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں مشرقی شہر خوست میں ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ لڑکیوں کوتعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے وہ جلد اسکول جانے لگیں گی۔ انھوں نے کہا تھا کہ قوم کی تعمیر میں خواتین کا اہم کردار ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو جلد خوش خبری ملے گی اورآپ خوش ہوجائیں گے۔ یہ مسئلہ آئندہ چند دنوں میں حل ہوجائے گا۔