افغان طالبان کا کہنا ہے کہ کابل کے صدارتی محل پر طالبان کا پرچم لہرا دیا گیا ہے جس کے بعد طالبان کی عبوری کابینہ نے باضابطہ طور پر کام شروع کر دیا ہے۔
کابل کے صدارتی محل پر طالبان کا پرچم امریکہ میں نائن الیون حملوں کی 20 ویں برسی کے موقع پر ہفتے کو لہرایا گیا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق طالبان کے ثقافتی کمیشن کے ملٹی میڈیا چیف احمد اللہ متقی کا کہنا تھا کہ طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم ملا محمد حسن اخوند نے ایک مختصر تقریب میں طالبان کا پرچم لہرایا۔
خیال رہے کہ طالبان نے رواں ہفتے نئی عبوری کابینہ کا اعلان کیا تھا جس میں ملا محمد حسن اخوند کو قائم مقام وزیرِ اعظم جب کہ ملا عبدالغنی برادر کو نائب وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا تھا۔
البتہ نئی عبوری کابینہ کی کوئی باقاعدہ حلف برداری کی تقریب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
احمد اللہ متقی کے بقول صدارتی محل پر طالبان کا جھنڈا لہرانا اس بات کی علامت ہے کہ اب نئی عبوری حکومت نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔
طالبان کی جانب سے خواتین کو عبوری حکومت میں نمائندگی نہ ہونے پر عالمی برادری نے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ عالمی برادری کو امید تھی کہ طالبان اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے ایک جامع حکومت تشکیل دیں گے۔
ادھر طالبان نے ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے لیے افغان پولیس کے اہل کاروں کو ڈیوٹی پر واپس بلا لیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق افغان پولیس کے اہل کاروں نے بتایا کہ اُنہیں افغان طالبان کے کمانڈرز کی جانب سے کال موصول ہوئی کہ وہ ڈیوٹی پر واپس آئیں۔
خیال رہے کہ طالبان نے کابل پر کنٹرول کے بعد عام معافی کا اعلان کیا تھا جس میں مسلح افواج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کے لیے بھی عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔
حامد کرزئی امن و استحکام کے خواہش مند
دوسری جانب طالبان کے پہلے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد 2001 میں افغانستان کے صدر بننے والے حامد کرزئی نے 'امن اور استحکام' کا مطالبہ کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ نئی عبوری کابینہ ایک 'جامع حکومت' تشکیل دے گی جو پورے افغانستان کی نمائندہ ہو گی۔
حامد کرزئی نے 11 ستمبر کے حملوں کی بیسوی برسی کا دن کابل میں بلند و بالا دیواروں میں گھرے اپنے کمپاؤنڈ میں قبائلی زعما سے ملاقات کرتے ہوئے گزارا۔
حامد کرزئی افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد اگست کے بعد سے اسی مقام پر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم ہیں۔
بیس برس کے دوران کابل میں کیا کچھ بدلا؟
دو دہائیوں قبل افغانستان میں طالبان کے دور میں ٹیلی ویژن پر پابندی تھی۔ 11 ستمبر 2001 کو جس دن امریکہ پر ہول ناک حملوں کیے گئے، یہ خبر افغان دارالحکومت کابل میں ریڈیو کے ذریعے پہنچی تھی۔
اس دور میں کابل میں لگ بھگ 10 لاکھ افراد رہائش پذیر تھے اور وہاں بجلی بھی پوری آبادی کو میسر نہیں تھی۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے جب اتحادی فورسز کے ساتھ افغانستان پر کارروائی کی تو محض دو ماہ کے اندر طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
البتہ 20 برس بعد طالبان دوبارہ کابل میں ہیں۔ امریکی فوج افغانستان سے جا چکی ہے اور امریکہ نے 11 ستمبر کی 20 ویں برسی سے دو ہفتے قبل اور 15 اگست کو افغان دارالحکومت کابل میں طالبان کی واپسی کے دو ہفتوں بعد اپنی 'کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ' کو ختم کر دیا ہے۔
طالبان کی آمد کے باعث خواتین کے ٹوٹتے خواب
1990 کی دہائی میں طالبان کے پہلے دورِ اقتدار کے مقابلے میں اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔
نوے کی دہائی میں طالبان جنگجو اپنی گاڑیوں میں کابل کی سڑکوں پر بغیر کسی رکاوٹ اور ٹریفک کے آتے جاتے دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اب انہیں لگ بھگ 50 لاکھ آبادی والے کابل کی بے ہنگم ٹریفک کا سامنا ہے۔
پہلے دور میں حجاموں کی دکانوں پر پابندی تھی لیکن اب طالبان جنگجو بھی حجام کی دکان پر اپنے بالوں کو درست کراتے دکھائی دیتے ہیں۔
البتہ اس بار بھی طالبان کی جانب سے سخت رویہ اپنانے کی شکایات عام ہو رہی ہیں جس سے خواتین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ خواتین کے کھیلوں پر پابندی ہے۔ طالبان مساوی حقوق مانگنے والی خواتین کو تشدد کے ذریعے احتجاج سے بھی روک رہے ہیں۔
شہر کے مضافات میں واقع ایک خواتین کے اسٹور میں موجود تائیکو انڈو کی کھلاڑی مرضیہ حامدی کہتی ہیں کہ طالبان کی واپسی نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ مرضیہ نیشنل چیمپئن بننا چاہتی ہیں۔
وہ ان خواتین میں شامل ہیں جن پر ایک حالیہ مظاہرے کے دوران طالبان نے حملہ کیا تھا اور انہیں 'مغربی ایجنٹ' قرار دیا تھا۔ ان کے بقول، وہ امریکہ کے انخلا پر حیران نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ''اس سال یا اگلے سال انہیں (امریکہ) بالآخر یہاں سے جانا تھا۔ وہ یہاں صرف اپنے مفاد کے لیے آئے تھے اور اپنے مفاد کے لیے ہی گئے ہیں۔''
حامدی کو امید ہے کہ طالبان اپنی پابندیوں میں نرمی کریں گے۔ دوسری جانب اسی اسٹور کی مالک فیصل نذیری کہتی ہیں کہ 'افغانستان میں زیادہ تر مرد طالبان کی خواتین سے متعلق باتوں اور ان کے خلاف احکامات سے اتفاق کرتے ہیں۔'
علاوہ ازیں طالبان کی جانب سے بھی ہفتے کو ایک خواتین مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ جہاں درجنوں خواتین سیاہ برقعے میں موجود تھیں اور انہوں نے خود کو سر سے پاؤں تک ڈھانپا ہوا تھا۔ اس موقع پر کابل یونیورسٹی کے تعلیمی مرکز کے آڈیٹوریم میں منعقدہ تقریب میں گزشتہ 20 برس کے دوران مغرب کی خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
طالبان کے ڈائریکٹر ہائیر ایجوکیشن مولوی محمد داؤد حقانی نے ہال کے باہر گفتگو میں کہا کہ 11 ستمبر وہ دن ہے جب ''دنیا نے ہمارے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا، ہمیں دہشت گرد کہا اور ہمیں'' امریکہ میں ہونے والے حملوں کے لیے ''ذمہ دار'' ٹھیرایا۔
اس خبر میں شامل بیشتر معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔