طالبان کے ایک ترجمان اور مذاکرات کار سہیل شاہین نے کہا ہے کہ جنگجو گروپ کی جانب سے اس وقت مذاکرات جاری ہیں، جس کا مقصد افغانستان میں ''کھلے دل سے، تمام فریقوں کی شراکت داری پر مشتمل اسلامی حکومت تشکیل دینا ہے۔''
ایسو سی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے، سہیل شاہین نے کہا کہ معاملات طے ہونے کے بعد صدارتی محل سے نئی حکومت سے متعلق اعلان کیا جائے گا۔
تاہم، اے پی کی رپورٹ کے مطابق، ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ ابھی آگے نہیں بڑھا۔
اس سے قبل، طالبان گروپ کابل کے اندر داخل ہوا، جس کے بعد امریکہ کی جانب سے سفارت کاروں اور دیگر سویلینز کے فوری انخلا کا کام تیزی سے نمٹایا جانے لگا۔
ادھر واشنگٹن سے ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک اور خبر کے مطابق، سفارت کاروں اور سویلینز کے انخلا میں مدد دینے کے لیے، اضافی 1000 فوجیوں کو کابل روانہ کیا جا رہا ہے، جس کے بعد انخلا کے معاملے سے متعلق امریکی فوجیوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 6000 ہو جائے گی۔
امریکی دفاع کے ایک اہل کار نے اتوار کے دن ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ 82 ایئربورن ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اسٹینڈ بائی 1000 فوجیوں کو کویت کے راستے سے نہیں بلکہ براہ راست کابل روانہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بات ایک دفاعی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتائی۔ تاہم، ابھی تک پینٹاگان نے اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔
اس سے قبل ہفتے کے روز صدر جو بائیڈن نے تقریباً 5000 اضافی فوجی کابل تعینات کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک ترجمان نے اتوار کے روز الجزیرہ نیٹ ورک کو بتایا کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی ہے اور جلد ہی یہ واضح کر دیا جائے گا کہ اب ملک پر کس طرح کی حکومت ہو گی۔
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ کسی جمہوری ادارے یا اس کے دفتر کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
ترجمان کاکہنا تھا کہ طالبان ہر فرد کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ تمام شہریوں اور سفارتی مشنز کو تحفظ فراہم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام افغان شخصیات سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور انہیں ضروری تحفظ کی ضمانت فراہم کریں گے۔ہم ہر قدم ذمہ داری سے اٹھائیں گے اور ہم ہر ایک کے لیے امن کی خواہش رکھتے ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ہم گزشتہ 20سال سے جس چیز کے لیے قربانیاں دے رہے تھے، وہ ہم نے حاصل کر لی ہے۔ ہمارا ملک اور اس ملک کے لوگ اب آزاد ہیں۔
نوٹ: اس خبر کی مزید تفصیلات موصول ہو رہی ہیں۔ خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔