رسائی کے لنکس

افغانستان: غیر ملکی صحافیوں کی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی اجازت نامے سے مشروط


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان میں طالبان کے نظم و نسق سنبھالنے کے بعد ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں پر مختلف پابندیاں عائد کرنے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ اب ذرائع ابلاغ سے منسلک افراد کو پیشہ ورانہ فرائض حکومت سے اجازت لینے سے مشروط کر دیے گئے ہیں۔

افغانستان کے سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے 15 اگست کو ملک چھوڑنے کے بعد 16 اگست کو طالبان دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے تھے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان غیر اعلانیہ طور پر وزارتِ اطلاعات کی نگرانی سنبھال لی ہے۔ ایسے میں افغان وزارتِ اطلاعات نے اب باقاعدہ طور پر ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے منسلک صحافیوں اور عملے کے دیگر افراد کو اجازت ناموں کا اجرا شروع کیا ہے۔

دارالحکومت کابل یا دیگر صوبوں میں ان اجازت ناموں کے اجرا کے بارے میں کسی قسم کے طریقۂ کار کا اعلان نہیں کیا گیا۔

پاکستان سے طورخم کے راستے افغانستان جانے والے پانچ پاکستانی اور تین جرمن باشندوں کو بدھ کو جلال آباد کے قریب طالبان نے حراست میں لیا تھا۔ اور لگ بھگ ایک دن اور ایک رات ان کو تحویل میں رکھا گیا تھا۔

کابل جانے والے صحافیوں میں سے چار کا تعلق پشاور، ایک کا کراچی اور تین کا تعلق جرمنی سے بتایا گیا۔ ان صحافیوں کو سرحد پار افغانستان کی حدود میں حراست میں لے کر جلال آباد شہر منتقل کیا گیا تھا۔

صحافیوں میں شامل پشاور پریس کلب کے ارکان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ انہیں اس بنیاد پر حراست میں لیا گیا تھا کہ وہ بغیر اجازت فلم بندی اور تصویر کشی کر رہے تھے۔

ان کے مطابق طالبان کا اصرار تھا کہ افغانستان کی حدود میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دینے سے قبل، کابل میں وزارتِ اطلاعات یا وزارتِ خارجہ سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔

بعد ازاں جمعرات کی صبح پانچ پاکستانی صحافیوں کو جلال آباد کے اسپن غر ہوٹل جانے دیا گیا جہاں سے انہوں نے پاکستان کے قونصل خانے سے رابطہ قائم کیا اور ایک پاکستانی سفارت کار نے ہوٹل آ کر نہ صرف صحافیوں کا مسئلہ حل کیا بلکہ طالبان سے ان افراد کو کابل جانے کے اجازت نامے بھی دلوائے۔

بدھ کو حراست میں لیے جانے والے جرمن صحافیوں کے بارے میں کسی قسم کی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔ پشاور کے صحافیوں نے دوران حراست بعض مسلح طالبان کے رویوں کو افسوس ناک قرار دیا۔

طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ان کی حکومت میں ذرائع ابلاغ یا صحافت پر کسی قسم کی قدغن نہیں ہو گی۔ البتہ اس اعلان کے باوجود ملکی اور غیر ملکی صحافی خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔

افغانستان میں خاتون صحافی کو کام سے کس نے روکا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:54 0:00

ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے کابل پر قابض ہونے کے بعد بڑی تعداد میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے ملک چھوڑنے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق امریکہ کی فوج اور ملازمین کے ساتھ جانے والوں میں 400 سے زائد افغان صحافی اور ان کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ کابل اور دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور ان کے رشتہ داروں کی بڑی تعداد ازبکستان، ایران اور پاکستان کے راستے افغانستان سے انخلا کر چکے ہیں۔

کابل سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی دانش کڑوخیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت افغانستان میں چوں کہ اقتدار اور نظام کی منتقلی کا سلسلہ مکمل نہیں ہوا۔ ایسے حالات سے جرائم پیشہ افراد بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان سمیت تمام غیر ملکی صحافیوں کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ تمام غیر ملکی صحافیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ وزارتِ اطلاعات یا وزارتِ خارجہ سے اجازت نامے حاصل کریں۔ تاکہ شہر کے مختلف علاقوں، سڑکوں اور دیہی آبادیوں میں طالبان ان کے ساتھ پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے میں تعاون کریں۔

پاکستان سے افغانستان جانے والے مقامی اور غیر ملکی صحافی اسلام آباد میں وزارتِ داخلہ یا فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ سے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کے راستے افغانستان میں داخل ہونے کے لیے اجازت نامہ حاصل کر سکتے ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان سے بڑی تعداد میں صحافی طورخم کے راستے کابل جا چکے ہیں۔ جب کہ اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افغانستان سے انخلا کے لیے اسلام آباد اور پشاور کا رخ کر رہے ہیں۔

کرونا وائرس کی صورتِ حال کے باعث مئی میں پاکستان نے طورخم اور چمن سمیت تمام سرحدی گزرگاہوں پر آمد و رفت کا سلسلہ محدود کر دیا تھا۔

اس فیصلے کے تحت پاکستان کے شہری تو دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کر سکتے ہیں البتہ افغانستان کے باشندے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتے۔

واضح رہے کہ افغانستان کا شمار ان ممالک میں سر فہرست ہے جن کو بین الاقوامی اداروں نے صحافیوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

گزشتہ 10 برس کے دوران افغانستان میں مجموعی طور پر 150 کو صحافیوں قتل کیا جا چکا ہے۔

پشاور پریس کلب کے صدر ایم ریاض کہتے ہیں کہ وہ طالبان کے رہنماؤں سے آزادیٴ صحافت کے اصولوں کی پاسداری کے توقع رکھتے ہیں۔

دوسری جانب صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے یقین دلایا تھا کہ وہ آزادیٴ تحریر اور تقریر کے حقوق کا احترام کریں گے۔ اب حالت یہ ہے کہ زیادہ تر صحافی اور سیاسی کارکن افغانستان چھوڑ رہے ہیں۔

ان کے مطابق نجی اور سرکاری ٹی وی پر موسیقی اور تفریحی پروگرامات بند ہو گئے ہیں۔ نجی ٹی وی ٹاک شوز کو طالبان کے نمائندوں کی موجودگی اور نرم سوالات کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔

افغانستان میں خواتین کو کام سے روکے جانے کی اطلاعات
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:22 0:00

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا اب طالبان کی طرف دیکھ رہی ہے کہ ان کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے۔

اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ ماضی میں طالبان آزادیٴ تحریر و تقریر اور دیگر بین الاقوامی انسانی حقوق سے یکسر انکاری تھے۔ اب طالبان رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح ماضی کے برعکس بین الاقوامی برادری کی امنگوں کے مطابق ایک قابلِ قبول نظام وضع کرتے ہیں جس میں ذرائع ابلاغ کی آزادی سر فہرست ہے۔

XS
SM
MD
LG