طالبان کے افغانستان پر قبضے کے فوراً بعد سب سے زیادہ تشویش خواتین میں پائی گئی جنہیں طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں سخت جبر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگرچہ طالبان نے یہ بیانات بھی دیے کہ خواتین کو شرعی حدود میں کام کرنے کی آزادی ہو گی مگر اس اسلامی گروپ کے ماضی کی روشنی میں افغان شہریوں کے لیے ان کے کسی بھی دعوے پر یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
وائس آف امریکہ کی عائشہ تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ طالبان کے ترجمان کے منگل کے اس بیان کے باوجود کہ خواتین کو محفوظ بنانے کے لیے پالیسی بنائی جا رہی ہے، افغانستان کے دو صوبوں میں خواتین اسکول ٹیچرز اور دیگر ملازمین نے طالبان جنگجوؤں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی اطلاعات دی ہیں۔
ملک کے شمال میں صوبے تخار اور کابل میں خواتین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ان پر لباس اور کام سے متعلق نئی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔
تخار میں ایک خاتون ٹیچر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ طالبان کا رویہ خواتین کے ساتھ بہت جارحانہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ خواتین 'چادری' پہنیں، جو سر سے پاؤں تک کا پہناوا ہے اور جس میں دیکھنے کے لیے ایک جالی لگی ہوتی ہے۔
اس ٹیچر نے مزید بتایا کہ صوبے تخار میں طالبان نے خواتین کے ساتھ بے حد سختی کی ہے، حتیٰ کہ انہیں سیاہ برقعہ پہننے کی بھی اجازت نہیں دی اور نہ ہی انہیں محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔
وہ کہتی ہیں سب کو کسی نہ کسی وقت گھر سے باہر جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور محرم تمام وقت دستیاب نہیں ہو سکتے۔
وہ کہتی ہیں کہ طالبان نے خواتین اساتذہ کے لڑکوں کو تعلیم دینے پر پابندی عائد کر دی ہے، جب کہ طلباء اور طالبات کو الگ الگ کر کے ان کا نصاب بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق نصاب میں کلچر اور کھیلوں سے متعلق مضامین تبدیل کر کے ان کی جگہ قرآن اور سیرت کے مضامین داخل کئے گئے ہیں جب کہ نصاب میں یہ طالبان کے ملک پر کنٹرول سے پہلے بھی موجود تھے۔
کابل میں کم از کم ایک اسپتال میں طالبان نے خواتین کے عملے سے کہا ہے کہ وہ اپنے کام کی جگہ مردوں سے الگ کر لیں یا پھر گھر پر ہی رہیں۔
وائس آف امریکہ کی ایک خاتون رپورٹر برقعہ پہن کر گھر سے نکلیں تو طالبان نے انہیں چہرہ بھی ڈھانپنے کے لئے کہا۔
منگل کے روز کابل میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ گروپ کے جنگجوؤں کو خواتین سے بات کرنے کی تربیت حاصل نہیں ہے۔
سرکاری دفتروں اور وزارتوں میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں انہوں نے کہا، "اسی لئے ہم خواتین سے کہہ رہے ہیں کہ وہ فی الحال گھروں پر ہی رہیں۔ انہیں تنخواہیں ملتی رہیں گی اور جیسے ہی ہم پورا نظام قائم کر لیتے ہیں، وہ کام پر واپس آ سکتی ہیں۔"
ایک خاتون صحافی کے اپنی حفاظت سے متعلق بار بار سوال پر طالبان کے ترجمان نے کہا کہ انہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ "آپ سویلین ہیں۔ صحافی ہونا کوئی جرم نہیں۔ آپ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے صوبے میں واپس جا سکتی ہیں اور کام کر سکتی ہیں۔"
ذبیح اللہ مجاہد نے تسلیم کیا کہ تشدد اور ہراساں کرنے کے اکا دکا واقعات ہوئے ہوں گے اور وعدہ کیا کہ ان کی چھان بین کی جائے گی۔
طالبان کوشش کرتے رہے ہیں کہ دنیا کے سامنے اپنا ایک نسبتاً اعتدال پسند رویہ ظاہر کریں، تاکہ بین الاقوامی طور پر ایک جائز مقام حاصل کر سکیں۔
تاہم خواتین، خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے 1990 میں طالبان کی حکومت کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے جب پوری طرح خود کو نہ ڈھانپنے پر عورتوں کو مارا پیٹا جاتا تھا اور لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔
اور یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے فوری طور پر طالبان کی بات پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔