ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا محمدعمر کو حال ہی میں دل کی تکلیف کے باعث ایک پاکستانی حساس ایجنسی کے اہلکاروں کی جانب سے پاکستان کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ کئی روز زیرِ علاج رہے۔
"واشنگٹن پوسٹ" نے اپنی تازہ اشاعت میں سابق امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں پر مشتمل ایک گروپ کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان رہنما رواں ماہ دل کا دورہ پڑنے کے بعد پاکستان کے ساحلی شہر اور صنعتی مرکز کراچی کے ایک ہسپتال میں کئی روز تک زیرِ علاج رہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ملا عمر کو ہارٹ اٹیک کے بعد پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی جانب سے 7 جنوری کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کے دل کا آپریشن کیا گیا۔ اخبار کے مطابق طالبان رہنما آپریشن کے بعد کئی روز تک ہسپتال میں ڈاکٹرز کے زیرِ نگہداشت رہے جس کے بعد انہیں ڈسچارج کردیا گیا۔
"واشنگٹن پوسٹ" کے مطابق اسے یہ رپورٹ فراہم کرنے والے انٹیلی جنس نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ اسے ملا عمر کی کراچی میں ایک ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے کی اطلاع ایک ڈاکٹر نے دی ہے جس نے طالبان رہنما کو ہسپتال میں دل کے آپریشن کے بعد صحت یابی کے مراحل سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔
اخبار کے مطابق اس کی معلومات کا ذریعہ سی آئی اے، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق اہلکاروں پر مشتمل "دی ایکلپس گروپ" نامی ایک نجی جاسوسی نیٹ ورک ہے ۔
تاہم امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے "واشنگٹن پوسٹ" کی خبر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ جبکہ ایک برطانوی اخبار "دی ٹیلی گراف" کے مطابق طالبان کے ایک ترجمان نے بھی مذکورہ خبر کو امریکی پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔
اخبار کے مطابق طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ ملا عمر صحت مند ہیں اور افغانستان ہی میں موجود ہیں۔
امریکی حکام کی جانب سے تاحال اس رپورٹ کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف سرگرم طالبان تحریک کے سربراہ ملا محمد عمر 2001 میں افغانستان پر کیے گئے امریکی حملے کے بعد سے روپوش ہیں۔