امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکے مطابق پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی اور امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے نے ایک مشترکہ کارروائی میں کراچی سے طالبان کے ایک اعلیٰ کمانڈرملا عبدالغنی برادر کو گرفتار کیا ہے۔
اخبار کے مطابق 2001 ء میں افغان جنگ کے آغاز کے بعدگرفتار کیے جانے والے طالبان کمانڈروں میں سے ملاعبدالغنی کوسب سے بڑا اور اہم طالبان رہنماء قراردیاجارہاہے ۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق طالبان رہنماء ملا عمر کے بعد عبدالغنی سب سے بااثر طالبان لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
اخبار نے اپنی خبر میں یہ وضاحت نہیں کی کہ عبدالغنی کو کراچی سے کب گرفتار کیا گیاتاہم نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ اُنھیں کراچی میں ہونے والے اس آپریشن کے بارے میں جمعرات کو پتا چل گیا تھالیکن وائٹ ہاؤس کی درخواست پر یہ خبر اُس وقت نشر نہیں کی گئی کیوں کہ حکام کا کہنا تھا اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد ملاعبدالغنی کے ساتھی اُن کی گرفتاری سے آگاہ ہو جائیں اور انتہائی اہم معلومات کی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔
تاحال یہ معلوم نہیں ہوا ہے کہ عبدالغنی برادر نے تفتیش کاروں کو معلومات فراہم کی ہیں یا نہیں تاہم حکام کا ماننا ہے کہ اس طالبان کمانڈر کی حراست کے بعد دیگر طالبان رہنماء کو گرفتار کرنے میں مددمل سکے گی۔ وائٹ ہاؤس ، سی آئی اے اور پینٹاگون نے عبدالغنی کی گرفتاری کے بارے میں کسی طرح کا تبصرہ نہیں کیا ہے۔
طالبان نے عبدالغنی برادر کی گرفتار ی کی تردید کرتے ہوئے اسے افواہ قرار دیا ہے۔ خیا ل رہے کہ ملاعبدالغنی کی گرفتاری کی خبر ایسے وقت منظر عام پر آئی ہے جب افغان صوبہ ہلمند میں لگ بھگ 15 ہزار امریکی، برطانوی اور افغان فوجیوں نے طالبان کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کررکھا ہے اس فوجی کارروائی کا مرکز مرجاہ نامی شہرہے۔ 2001ء میں افغانستان کی جنگ شروع ہونے کے بعد افغانستان میں ہونے والا یہ سب سے بڑا آپریشن ہے۔
ادھر منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی اُس خبر کی براہ راست تصدیق نہیں کی جس میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے ایک اعلیٰ ترین کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کو کراچی سے گرفتار کیا گیا ہے۔ رحمن ملک نے بتایا کہ افغانستان سے سرحد پار کرکے پاکستان داخل ہونے والے مشتبہ زیرحراست جنگجوؤں سے تفتیش اور شناخت کا عمل جاری ہے اور اگر ان افرا د میں کوئی اعلیٰ کمانڈر بھی پایا گیا تو اُس کے بارے میں قوم کو آگا ہ کیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا ہے کہ افغانستان کے صوبہ ہلمند کے مرجاہ کے علاقے میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف امریکہ اور اُس کی اتحادی فوجوں کے ایک بڑے آپریشن کے بعد بہت سے لوگ سرحد پار سے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں جن میں بڑی تعداد میں مشتبہ طالبان عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ لیکن اُنھوں نے کہا کہ وہ فوری طور پربغیر تصدیق کیے کسی کا نام بتانے سے قاصر ہیں۔
پاکستانی طالبان کے رہنماء حکیم اللہ محسود کی ایک مبینہ امریکی ڈرون طیارے سے داغے کے میزائل حملے میں زخمی ہونے کے بعد ہلاکت کی اطلاعات کے بارے میں رحمن ملک نے بتایا کہ حکومت اس بارے میں مصدقہ معلومات کا انتظار کر رہی ہے اور اُن کے بقول کیوں کہ یہ واقعہ ایک دوردراز قبائلی علاقے میں پیش آیا اس لیے وہاں سے قابل اعتماد معلومات کے حصول میں دشواری پیش آر ہی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جیسے ہی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے مصدقہ شواہد ملے حکومت اس کا اعلان اُسی طرح کردے گی جیسے بیت اللہ محسود کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی ۔