افغانستان کے متعدد خبر رساں اداروں کو اس ہفتے طالبان کی جانب سے خطوط موصول ہوئے ہیں جس میں گروپ نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میڈیا میں طالبان کو کس نام سے پکارا جائے۔
اس خط میں، جسے وائس آف امریکہ نے حاصل کیا ہے، میڈیا اداروں سے کہا گیا ہے کہ طالبان کو ان کے سرکاری نام، "امارت اسلامی افغانستان" سے پکارا جائے۔ اس خط میں میڈیا کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ نوجوانوں کو ملک چھوڑنے کی مبینہ حوصلہ افزائی سے باز رہے اور اسلام کے علاوہ کسی بھی اور مذہب کی مبینہ طور پر ترویج نہ کرے۔
اس خط میں موجود احکامات 25 ستمبر کو ملک کے بڑے میڈیا اداروں کو ارسال کیے گئے اور ان پر طالبان کے اطلاعات اور ثقافت کے عبوری ڈپٹی وزیر ذبیح اللہ مجاہد کے دستخط ہیں۔
اس سے قبل طالبان میڈیا کے لیے ہدایات جاری کر چکے ہیں جن میں صحافیوں کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ حکومت کے میڈیا سینٹر کے ساتھ مل کر تفصیلی رپورٹس تیار کریں۔
صحافیوں کے حقوق کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے ایشیا پروگرام کے کوارڈینیٹر اسٹیون بٹلر کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے یہ مطالبہ اپنی حکومت کو جواز بخشنے کے لیے کیا گیا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "طالبان اس سے پہلے ایک عسکری طاقت کے طور پر جانے جاتے ہیں، نہ کہ حکومت کرنے والی طاقت کے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اقتدار کا جواز پیدا کریں۔"
اس خط میں طالبان نے حکم دیا ہے کہ انہیں امارت اسلامی افغانستان کے طور پر پکارا جائے۔ اس حکم کے جواز میں انہوں نے کہا کہ طالبان کا پورے ملک پر کنٹرول ہے اور وہ مذہب، ملک اور لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس لیے بقول طالبان کے انہیں طالبان گروہ کے طور پر نہ پکارا جائے۔
اس وقت تک طالبان کے اقتدار کو کسی بھی ملک نے قبول نہیں کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے طالبان کے اقتدار کو قبولیت گروپ کے طرز عمل سے مشروط کی گئی ہے۔ رواں برس ستمبر میں طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کی درخواست کو اقوام متحدہ کے حکام کی جانب سے رد کر دیا گیا تھا۔
اسٹیو بٹلر کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا طالبان ان ہدایات پر میڈیا اداروں سے عمل کروا پاتے ہیں کہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اکثر حکومتیں میڈیا تک اپنی خواہش پہنچاتی ہیں۔ لیکن یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان ہدایات پر طالبان کیسے عمل کرواتے ہیں۔ بقول ان کے "ایک بار جب آپ اس پر زبردستی عمل کروانا شروع کر دیتے ہیں تو پھر یہ سینسرشپ کی صورت حال بن جاتی ہے۔"
وائس آف امریکہ کے مطابق ابھی تک میڈیا اداروں کی جانب سے اس درخواست پر عمل نہیں کیا گیا۔
ملک کے بڑے میڈیا ادارے طلوع نیوز کی جانب سے ابھی تک ان ہدایات پر عمل شروع نہیں کیا گیا۔ وائس آف امریکہ اور مقامی صحافیوں کی تنظیم کی جانب سے کیے گئے ایک مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہشتِ صبح اور اطلاعات روز جیسے قومی اخباروں میں بھی ابھی تک گروپ کو ان کے عام فہم نام، طالبان سے پکارا جا رہا ہے۔
کابل سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی اسحاق علی احساس کے مطابق جب تک طالبان باضابطہ طور پر اپنی حکومت کا اعلان نہیں کرتے تب تک وہ میڈیا کو ہدایات جاری نہیں کر سکتے۔
ملک کے دوسرے بڑے میڈیا اداروں کی طرح آریانہ نیوز نے اپنی رپورٹنگ کے دوران طالبان کی ہدایات پر عمل شروع کر دیا ہے۔
ابھی تک طالبان کی جانب سے یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ ان ضابطوں پر عمل نہ کرنے والے اداروں کو کیا سزا دی جائے گی۔