ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان امیر کی جانب سے پوست کی کاشت پر یکسر پابندی افغانستان کی پہلے سے شدید خراب معاشی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے اور اس سے حالات اسلام پسند حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت کی طرف جا سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے وابستہ افغان امور کے تجزیہ کار ولیم بائرڈ نے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ممکنہ حد تک بدترین وقت میں یہ احمقانہ حکمت عملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس حکمت عملی پر عمل درآمد ہوا تو دیہی افغانستان میں سینکڑوں ہزاروں خاندان کا گزارہ مشکل ہو جائے گا۔
طالبان کی طرف سے پوست کی کاشت پر پابندی سے پہلے گزشتہ بیس برسوں میں بین الاقوامی سطح پر بھی کوشش کی گئی کہ افغانستان کے اندر اس فصل کی کاشت کو روکا جا سکے جس کا دنیا بھر میں ہونے والی ترسیل میں حصہ 80 فیصد ہے۔ سابق افغان حکومت کی پوست کی کاشت کے انسداد کی کوششوں میں غیر ملکی فنڈنگ کے باوجود خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اور ہر سال اس میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوا۔
اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کا کہنا ہے کہ افیون کی غیر قانونی پیداوار افغانستان منظم جرائم، بدعنوانی اور افغانستان کے اندر اور دنیا کے دیگر خطوں میں عسکریت پسندی کا سبب بنتی ہے۔
لیکن ایسے وقت میں جب بین الاقوامی امداد کی بندش کے بعد افغانستان کی معیشت انہدام کا شکار ہے اور ملک کی زیادہ تر آبادی کو بھوک کا سامنا ہے، ماہرین کہتے ہیں کہ طالبان کی طرف سے اس وقت پکڑ دھکڑ مزید نقصان دہ ثابت ہو گی۔
توقع کی جارہی ہے کہ افغانستان میں اس سال گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ ہزار آٹھ سو ٹن زیادہ پوست کاشت ہو گی۔ یہ فصل افغان کاشتکاروں اور ہزاروں نوجوان افغان شہریوں کے لیے موسمی روزگار کا اہم ذریعہ بنتی ہے۔
پوست کی کاشت کو افغانستان کے اندر دو 2021 میں ایک لاکھ 77 ہزار ایکڑ پر محیط تھی، اس سے ایک لاکھ نوے ہزار سات سو افراد کو روزگار ملا جو اقوام متحدہ کے ڈرگز اینڈ کرائم کے ادارے کے مطابق سال دو ہزار انیس میں کل وقتی ملازمت رکھنے والوں کی تعداد کے برابر ہے۔