طالبان نے اتوار کو کابل کی ایک مسجد کے باہر ہونے والے دھماکے کے بعد جوابی کارروائی میں داعش کے متعدد ارکان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق طالبان کے عبوری نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کے انتقال پر اتوار کو کابل کی عید گاہ مسجد میں تعزیتی اجلاس جاری تھا۔
اس موقعے پر مسجد کے باہر دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے تاہم اس حملے کی ذمے داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی تھی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان نے کابل کے شمالی علاقے خیر خانہ میں داعش کے ٹھکانوں پر کارروائی کی ہے جس کے نتیجے میں متعدد جنگجو مارے گئے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں داعش کے مارے جانے والے کارکنوں کی تعداد نہیں بتائی اور اس کارروائی میں طالبان کے زخمی ارکان سے متعلق بھی کچھ نہیں بتایا ہے۔
واضح رہے کہ کابل میں اتوار کو ہونے والا دھماکہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز دھماکہ تھا۔
اس سے قبل داعش نے 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں 169 افغان شہری اور 13 امریکی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اتوار کو ہونے والا دھماکہ طالبان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل طالبان بھی 20 سالہ افغان جنگ کے دوران اس طرح کے حملے کرتے رہے ہیں جب کہ داعش نے بھی اسی طرح کے حملوں کا طریقہ اختیار کیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے 2019 میں داعش کے خلاف بمباری کے نتیجے یہ تنظیم کمزور پڑ گئی تھی تاہم 2020 میں اس نے افغانستان میں دوبارہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔
داعش پر 2020 میں ایک میٹرنٹی اسپتال پر حملے کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس حملے میں 24 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں نومولود بھی شامل تھے۔
رواں سال کے آغاز میں کابل کے مغربی علاقے دشت بارچی کے ایک اسکول میں ہونے والے حملے میں 80 طالب علم مارے گئے تھے جن میں سے بیشتر شیعہ تھے۔ اس حملے کا ذمہ دار بھی داعش کو قرار دیا گیا تھا۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔