رسائی کے لنکس

طالبان نے یونیورسٹیوں میں خواتین کا داخلہ روک دیا، امریکہ اور برطانیہ کی مذمت


طالبان کی جانب سے تعلیم پر پابندی کے باعث لڑکیاں رضاکاروں کی جانب سے چلائے جانے والے ایک خفیہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
طالبان کی جانب سے تعلیم پر پابندی کے باعث لڑکیاں رضاکاروں کی جانب سے چلائے جانے والے ایک خفیہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

طالبان حکومت کی وزارت تعلیم نے منگل کے روز بتایا ہے کہ اس نے فوری طور پر یونیورسٹیوں میں طالبات کا داخلہ بند کر دیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے طالبان کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق طالبان کی اعلی تعلیم کی وزارت کے ایک ترجمان نے ایک خط کی تصدیق کی ہے جس میں ملک کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ طالبات کی یونیورسٹیوں تک رسائی کو ختم کر دیں۔ یہ خط ملک کی عبوری کابینہ کے ایک فیصلے کی روشنی میں لکھا گیا ہے۔

طالبان کی جانب سے یہ اقدام ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب خواتین سے متعلق ان کے پالیسیوں پر دنیا بھر میں تنقید کی جا رہی ہے اور ابھی تک انہیں کسی بھی ملک کی حکومت نے تسلیم نہیں کیا ہے۔

منگل کے ہی روز امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے طالبان کی جانب سے یونیورسٹیوں تک خواتین کی رسائی پر پابندی کی مذمت کی ہے۔

یہ اعلان ایسے موقع پر کیا گیا جب نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا افغانستان کے معاملے پر اجلاس جاری ہے۔ اس موقع پر امریکہ اور برطانیہ کے اقوام متحدہ میں موجود سفیروں نے اس اعلان کی مذمت کی ہے۔

امریکہ کے اقوام متحدہ میں ڈپٹی سفیر رابرٹ ووڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’طالبان بین الاقوامی برادری کے باضابطہ رکن بننے کی توقع تب تک نہیں رکھ سکتے جب تک وہ تمام افغان شہریوں، خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام نہیں کرتے۔‘‘

اس سے قبل اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی روزہ اوتنبایا نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سکولوں کے بند کرنے سے طالبان حکومت کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک اسکولوں سے لڑکیوں کو دور رکھا جائے گا اور طالبان بین الاقوامی برادری کی تشویش کو نظر انداز کرتے رہیں گے، تب تک موجودہ صورت حال برقرار رہے گی۔

یونیورسٹیوں پر یہ پابندی ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب طالبات سالانہ امتحانات کی تیاری کر رہی تھیں۔

رائٹرز کو ایک یونیورسٹی طالبہ کی والدہ نے سیکیورٹی وجوہات سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی بیٹی نے اس فیصلے کے معلوم ہونے پر انہیں روتے ہوئے کال کی۔بقول ان کے اسے یہ خدشہ تھا کہ وہ کابل میں اپنی میڈیکل کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے گی۔

انہوں نے کہا ’’میرے اور دوسری ماؤں کے دلوں میں جو درد ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ہم سب دکھی ہیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔‘‘

طالبان کی اعلیٰ تعلیم کی وزارت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹیوں کے نصاب کو شریعہ کے مطابق ڈھالنے کے بعد انہیں جلد ہی دوبارہ کھول دیا جائے گا۔

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے رائئرز سے لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG