اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت سترہ ممالک کے سفارتکاروں نے ویانا میں شام کے بحران سیاسی حل کے لیے بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔
اس اجلاس میں روس اور ایران بھی شریک ہیں جو طویل عرصہ سے صدر بشار الاسد کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کی شام میں فوجی مداخلت کا مقصد صدر اسد کی کمزور ہوتی ہوئی حکومت کو مضبوط بنانا ہے۔
امریکہ نے کہا تھا کہ وہ شام پر ہونے والے عالمی مذاکرات میں صدر بشار الاسد کے بغیر شام کے مستقبل کی حمایت کرے گا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ جمعے کو ہونے والے مذاکرات کئی سال میں پہلی مرتبہ ملک سے خونی خانہ جنگی ختم کرنے کا سب سے امید افزا موقع ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو اپنے روسی اور ایرانی ہم منصب سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے جمعرات کو کہا کہ ویانا میں مذاکرات کا مقصد شام میں سیاسی تبدیلی کے لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے جو قابل عمل ہو۔
’’ایسا حکومتی لائحہ عمل جس میں صدر بشارالاسد شامل نہ ہوں اور جو دیرپا اور مستحکم ہو۔‘‘
ایسے لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنا آسان نہیں ہو گا اور جمعے کو کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں۔ امریکہ کے علاوہ سعودی عرب اور ترکی بھی صدر اسد کو حکومت سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس سے قبل شام پر ہونے والے مذاکرات جن میں ایران کو شامل نہیں کیا گیا تھا ناکامی سے دوچار ہوئے تھے۔ جان کربی نے کہا کہ ایران کی شمولیت کے بغیر شام میں کامیاب سیاسی تبدیلی ممکن نہیں۔
’’ایران کے پاس علاقے میں زیادہ تعمیری طاقت بننے اور درست کام کرنے میں عالمی برادری کی مدد کا ایک موقع ہے کہ ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دیا جائے جس کے تحت شامی عوام ایک نمائندہ، فیصلہ سازی میں ہر ایک کو شامل کرنے والی اور ذمہ دار حکومت حاصل کر سکیں جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔‘‘
مگر کچھ امریکی قانون ساز اس بات پر تحفظات رکھتے ہیں کہ آیا ایران اور روس ایسا لائحہ عمل تیار کرنے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں یا نہیں۔
روسی فضائی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹر باب کروکر نے کہا کہ زمینی حقائق کی موجودگی میں کسی عظیم سفارتی حل کے امکانات مخدوش ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ویانا میں مذاکرات کے شرکا پر زور دیا ہے کہ وہ ’’لچک‘‘ کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے ان مذاکرات میں ایران کی پہلی مرتبہ شمولیت کا خیر مقدم کیا۔