قبائلی ذرائع اور انتظامی عہدیداروں نے بتایا کہ اتوار کی شام نامعلوم مسلح نقاب پوش میر علی قصبے کے ایک نواحی گاؤں میں حکومت کے وفادار قبائلی رہنما ملک عمرا ن کے گھر میں گھس گئے اور اُنہیں گولیاں مارکر قتل کردیا جبکہ فائرنگ سے اُس کے بہن شدید زخمی ہوئی۔
پچھلے مئی میں شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں گھات لگا کر نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کرنے کے واردات تواتر سے ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ پچھلے ہفتے ایک دن میں دو مختلف واقعات میں ایک خاتون سمیت پانچ افراد کو نامعلوم حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کردیاتھا۔
سابق ممبر قومی اسمبلی کامران وزیر نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان واقعات کی وجوہات ابھی سامنے آنا باقی ہیں تاہم یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان واقعات پر قابو پائے۔
سابق سینیٹر اور حزبِ اختلاف میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افرا سیاب خٹک نے ان واقعات کو حکومت کے غلط پالیسوں کا نتیجہ اور فوجی اپریشن ضربِ عضب کی ناکامی قراردیا۔
اُنہوں نے کہا کہ فوجی کاروائی میں حکومت نے ان کے وفادارجنگجوں کے خلاف کاروائی نہیں کی تھی اور اب یہ جنگجوں دوبارہ سرگرم ہوئے ہیں ۔
جون 2014 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کاروائی ضربِ عضب کو سول اور فوجی عہدیدارو نے کامیاب اور اس کاروائی کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کو عسکریت پسندوں سے پاک قرار دینے کے وعدے کرتے رہتے ہیں ۔
اس فوجی کارروائی کے دوران عام قبائلیوں کو سیکورٹی فورسزکے اہلکاروں نے غیر مسلح کر رکھا ہے اور اب عام لوگوں کے پاس اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے بھی اسلحہ نہیں ہے۔
پختون تخفظ تحریک نے ان واقعات کے خلاف احتجاجی دھرنے کی بھی دھمکی دے رکھی ہے۔