|
وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر کمیشن بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی پر مشتمل ایک رُکنی کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کرے گا جو 60 روز میں اپنی رپورٹ جمع کروائے گا۔
ہفتے کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دی گئی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثر انداز ہونے اور مبینہ مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس اور کمیشن کے ٹی او آرز
ہفتے کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ویڈیو لنک پر ہونے والے کابینہ اجلاس میں اٹارنی جنرل کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور ان سے اس معاملے پر قانونی رائے لی گئی۔
سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے بھی باضابطہ طور پر رابطہ کیا گیا اور قانونی ٹیم کو بھی یہ بتا دیا گیا ہے کہ کابینہ نے سابق چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کیا ہے۔
کابینہ نے انکوائری کمیشن کے ٹی او آر ز (ٹرمز آف ریفرنس) بھی طے کردیے ہیں جن کا باضابطہ اعلان کردیا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ آیا کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟
کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔ کمیشن کو یہ بھی اختیار ہو گا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کر سکے گا۔
کابینہ کے اجلاس نے خط میں ایگزیکٹو کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا۔ کابینہ ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ دستور پاکستان 1973 میں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو انکوائری سونپنے کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان کا کہنا ہے کہ حاضر سروس ججز پر مشتمل انکوائری کمیشن بنایا جائے۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی کون ہیں؟
جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی چھ جولائی 1949 کو پیدا ہوئے، ایف سی کالج سے ایم اے سیاسیات کیا۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1974 میں جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے بطور وکیل اپنی پریکٹس کا آغاز کیا۔
جسٹس (ر) تصدق جیلانی سن 1979 میں ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل تعینات ہوئے۔ وہ 1988 میں پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل تعینات کیے گئے، 1993 میں انہیں ترقی دے کر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں سات اگست 1994 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور تقریباً 10 سال کے بعد انہیں جولائی 2004 میں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔
جسٹس (ر) تصدق جیلانی اس سات رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے تین نومبر 2007 کو پرویز مشرف کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجینسی کے بعد ججز کو پی سی او کے تحت حلف نہ اُٹھانے کا حکم دیا تھا۔ بیورو کریسی کو بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ فوجی آمر کا کوئی حکم نہ مانے۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی ان ججز میں شامل تھے جنھیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجینسی کے نفاذ کے بعد برطرف کر دیا تھا۔
تاہم وہ مارچ 2009 میں عدلیہ کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے لانگ مارچ کی وجہ سے چیف جسٹس سمیت بحال ہونے والے دیگر ججوں میں شامل نہیں تھے۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی اور سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس ناصر الملک کو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے دور ہی میں دوبارہ حلف لینے کے بعد اُن کے عہدوں پر بحال کردیا گیا تھا۔
جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہوں نے 12 دسمبر 2013 کو چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ بطور چیف جسٹس انہوں نے کم و بیش سات ماہ خدمات سرانجام دیں اور پانچ جولائی 2014 کو ریٹائر ہوئے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور سابق نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی جسٹس تصدق جیلانی کے بھانجے ہیں۔
ججز کے خط میں مزید کیا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس سے ججز کی رائے میں اختلاف کا آغاز ہوا تھا۔
خط کے متن کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق نے ٹیریان وائٹ کیس قابلِ سماعت قرار دیا جب کہ کیس ناقابلِ سماعت قرار دینے والے ججوں پر آئی ایس آئی کے آپریٹو کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے بے حد دباؤ ڈالا گیا۔
ججز کے مطابق یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا گیا۔ جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ انہوں نے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل سے بات کر لی ہے۔ آئندہ ایسا نہیں ہو گا لیکن پھر بھی مداخلت کا سلسلہ رک نہ سکا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں نہ صرف اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں کا ذکر کیا گیاہے بلکہ اس سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے گئے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔
فورم