پاکستان میں چھ اکتوبر کو پاکستان کی فوج میں ہونے والی تقرریوں اور تبادلوں کے بعد مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں جن پر نئے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی تعیناتی پر وزیرِ اعظم عمران خان اور فوج میں رپورٹس کے مطابق اختلاف پیدا ہوا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر اور تعیناتی کے لیے تمام آئینی اور قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی وزیرِ اعظم کا اختیار ہے۔
انہوں نے آرمی چیف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیرِ اعظم کے قریبی تعلقات ہیں۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس وقت سول اور ملٹری تعلقات آئیڈیل ہیں۔
فواد چوہدری نے تصدیق کی کہ پیر کی شب وزیرِ اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے درمیان طویل ملاقات ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کا دفتر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے پاکستان کی فوج کے سپہ سالار کی عزت میں کمی ہو اور نہ ہی فوج کوئی قدم ایسا اٹھائے گی جس سے وزیرِ اعظم کی عزت میں کمی آئے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے لیے قانونی طریقۂ کار اختیار کیا جائے گا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرر کا اختیار وزیرِ اعظم کو حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام تعیناتیاں مشاورت اور قانونی طریقۂ کار سے ہوتی ہیں اور نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر بھی طریقۂ کار کے مطابق ہو گا۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر اور قیاس آرائیاں
پاکستان میں چھ اکتوبر 2021 کو فوج میں ہونے والے تقرر و تبادلوں کے بعد مختلف قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔
یاد رہے کہ چھ اکتوبر کو پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے تقرر اور تبادلوں کا اعلان کیا تھا جن کے مطابق کور کمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا ہے جب کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا ہے۔
ان تبادلوں کے چھ دن بعد بھی اب تک نئے ڈی جی آئی ایس آئی نے عہدے کا چارج نہیں سنبھالا۔
اس بارے میں کئی اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں بھی ہوئیں اور پیر کی شب وزرا کے ایک وفد کی بھی عسکری قیادت سے ملاقات ہوئی جس میں ان امور پر بات چیت کی گئی۔
’حکومت کا یہ بیانیہ کمزور ہوا ہے‘
پاکستان کی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس صورتِ حال کو افسوسناک قرار دیا ۔
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ فوجی افسران کی پوسنٹگ اور ٹرانسفر کا کام ایک معمول کا معاملہ ہوتا ہے۔ البتہ اس وقت ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور علاقائی صورتِ حال کو چھوڑ کر سب ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے پر بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک سویلین پوسٹ ہے اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیرِ اعظم کے ماتحت ہوتا ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرر کے طریقۂ کار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم ایک افسر کی پوسٹ پر تعیناتی کا وقت مکمل ہونے کے بعد فوج سے ناموں کا پتا کرتے ہیں اور ایک نام کا نوٹیفیکشن جاری کر دیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق اس میں کوئی انہونی بات نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کا کسی کو پتا بھی نہیں ہوتا۔ البتہ ہمارے ہاں عجیب ہی ماحول ہے کہ ایک انٹیلی جنس سربراہ کے تبادلے پر سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے۔
اس پیر کو اس حوالے سے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد سے جب سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب ٹھیک ہے البتہ وہ سرکاری بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں،
حکومت کے مؤقف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سرکاری بیان وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری اور وزیرِ دفاع پرویز خٹک ہی دے سکتے ہیں۔