بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع دنتے واڑہ میں ماؤ نوازوں کے حملے میں چھتیس گڑھ ڈسٹرکٹ ریزرو گارڈ (ڈی آر جی) کے 10 جوان ہلاک ہو گئے ہیں۔ حملے میں ایک ڈرائیور کی بھی ہلاکت ہوئی ہے۔
سیکیورٹی اہلکار بدھ کو نکسلیوں کی موجودگی کی اطلاع پر دنتے واڑہ کے ارن پور علاقے میں گئے تھے۔
ریاستی حکام کے مطابق ماؤ نوازوں نے دھماکہ خیز مادے کا استعمال کرتے ہوئے سیکیورٹی جوانوں کی منی وین کو اڑا دیا۔
"ڈی آر جی" چھتیس گڑھ کی ایک اسپیشل پولیس فورس کا نام ہے جو مقامی قبائلی باشندوں پر مشتمل ہے۔
ان لوگوں کو ماؤ نوازوں سے مقابلے کی خاص ٹریننگ دی گئی ہے۔ سیکیورٹی جوان مقررہ مقام سے لوٹ رہے تھے کہ ان کی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ دھماکہ خیز مادہ جوانوں کی واپسی کے راستے پر رکھا گیا تھا۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل سے اس سلسلے میں ٹیلی فون پر بات کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے ماؤنوازوں کے خلاف کارروائی میں وزیر اعلیٰ کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔
ایک ٹوئٹ میں امت شاہ نے کہا کہ وہ دنتے واڑہ میں چھتیس گڑھ پولیس کے جوانوں پر ماؤ نوازو ں کے بزدلانہ حملے سے غمزدہ ہیں اور ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔
بھوپیش بگھیل نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ماؤ نوازوں کے حملے میں ڈی آر جی کے 10 جوانوں کی ہلاکت انتہائی افسوسناک ہے۔ وہ دنتے واڑ میں ماؤ نوازوں کی موجودگی کی اطلاع پا کر ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے کہ انہوں نے دھماکہ خیز مادے سے ان کی گاڑی اڑا دی۔
انہوں نے ہلاک شدگان کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ تعزیت و ہمدردی کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں ملوث ماؤ نوازوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ نکسلیوں کے خلاف لڑائی آخری مرحلے میں ہے۔ وہ بچ کر نہیں جا سکتے۔
بستر رینج کے انسپکٹر جبرل آف پولیس سندا راجہ کے مطابق پولیس کو پورا ہدما علاقے کے دربھا ڈویژن میں ماؤ نوازوں کی موجودگی کی خبر ملی تھی۔ ڈی آر جی نے ان کے خلاف کارروائی کی۔ جب وہ اپنی کارروائی مکمل کرکے دنتے واڑہ لوٹ رہے تھے تو ان پر حملہ کیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جائے واردات سے لاشیں ہٹائی جا چکی ہیں اور سینئر اہلکار موقع پر موجود ہیں۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس کے مطابق ماؤ نوازوں کو تلاش کرنے کی مہم جاری ہے۔
چھتیس گرھ کے گورنر بسوا بھوشن ہری چندن نے بھی اس واقعے پر اظہار افسوس کیا۔ انہوں نے ماؤ نوازوں کی اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ریاستی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں مشترکہ کوشش سے ماؤ نواز عناصر کے خاتمے کے اپنے عہد کی پابند ہیں۔
ماؤ نواز شورش پسندوں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں باخبر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریاست چھتیس گڑھ میں بھی اسی سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ انتخابات جوں جوں قریب آئیں گے اس قسم کے واقعات کی تعداد بڑھے گی۔
عشروں سے ماؤنوازوں کی کارروائیوں کی رپورٹنگ کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار و صحافی رئیس احمد لالی کا کہنا ہے کہ کافی دنوں سے شورش پسندوں کی کارروائیاں ٹھپ تھیں جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ نکسل تحریک کمزور پڑ گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تو نکسلیوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا معاملہ بھی انتخابی ایشو بنے اور ان کے مسائل پر بھی گفتگو ہو۔
ان کے مطابق نکسلیوں کا یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ اگر حکومت اپنی کارروائیوں کے سبب یہ سمجھنے لگے کہ اس نے ان کی کمر توڑ دی ہے تو پھر وہ اپنی موجودگی دکھانے کے لیے اس قسم کی وارداتیں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دراصل ان کا مقصد حکومت کو اپنی موجودگی دکھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ ان لوگوں کی نظروں میں آنا چاہتے ہیں جو ان کے وسائل کے ذرائع ہیں او رجہاں سے ان کو ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نکسلی خبروں سے غائب ہو جائیں تو ان کے ریونیو پر اثر پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ جگدل پور اور بستر وغیرہ اضلاع میں کلکتہ اور دیگر علاقوں کے تاجر بڑی تعداد میں تیندو درخت کے پتے کی خرید کے لیے آتے ہیں۔ ماؤ نواز ان سے پروٹیکشن منی یعنی ان کی حفاظت کے لیے ان سے رقوم وصول کرتے ہیں۔
رئیس احمد لالی نے ابھی حال ہی میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے جن علاقوں میں جانا مشکل ہوا کرتا تھا اب وہاں بھی آسانی سے جایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق جائے واردات کے قرب و جوار میں بھی خطرات کم ہو گئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نکسل تحریک بالکل ختم ہو گئی ہے۔ لہٰذا ماؤ نوازوں نے اس واردات کے توسط سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔
مائو نواز باغی بھارت کی 20 سے زائد ریاستوں میں سرگرم ہیں۔ تاہم یہ چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں زیادہ متحرک ہیں اور ان علاقوں کے جنگلات اور دوردراز کے علاقوں میں یہ اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
یہ محروم اور پسے ہوئے طبقات کو حقوق دلانے کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ تحریک 1960 کی دہائی میں مغربی بنگال کے نکسل باڑی گاؤں سے شروع ہوئی تھی اور اسے بھارت کے محروم اور پسے ہوئی طبقات میں پذیرائی حاصل ہوئی۔
بھارتی حکمران اس تحریک کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں جب کہ عوامی سطح پر ان کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔