جنوبی ایشیا کی دو ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین تناؤ کے شکار تعلقات میں ہنوز بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیتے اور کئی روز سے متنازع علاقے کشمیر کو منقسم کرنے والی عارضی حد بندی (لائن آف کنٹرول) اور ورکنگ باؤنڈری پر دونوں جانب کی فورسز کے درمیان فائرنگ کے مسلسل تبادلے کے بعد سفارتی سطح پر بھی کشیدگی در آئی ہے۔
جمعرات کو پہلے بھارت نے نئی دہلی میں ایک پاکستانی سفارتکار کو جاسوسی کے الزام میں ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک سے چلے جانے کا کہا تو اسی شام پاکستان نے بھی اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک عہدیدار کو ایسے ہی الزامات عائد کر کے ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔
لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ میں پہل کا الزام بھی دونوں ملک ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں ایسے واقعات میں متعدد افراد ہلاک و زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
جمعہ کو پاکستانی فوج نے بھارتی سرحدی فورسز کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ سے 15 پاکستانی رینجرز کو ہلاک کیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یہ دعویٰ جھوٹا اور بے بنیاد ہے اور پاکستانی فوج کے بقول بھارت کی طرف سے ایسے دعوے سرحد پر اپنی جانب ہونے والے اپنے جانی نقصان کو چھپانے اور کشمیر کے معاملے پر عالمی توجہ کو ہٹانے کی مہم کا حصہ ہیں۔
جمعہ کو بھی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں بھارتی حکام کے مطابق ایک خاتون سمیت دو بھارتی شہری مارے گئے جب کہ اس سے قبل حالیہ دنوں میں ہونے والے فائرنگ کے تبادلوں میں پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ اس کے کم از کم پانچ سات شہری ہلاک اور 21 زخمی ہوچکے ہیں۔
سرکاری بیان کے مطابق جمعرات کو بھی فائرنگ کے تبادلے میں ایک خاتون ہلاک اور ایک بچی زخمی ہوگئی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعہ کو بھی نائب بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے فائرنگ کے ان واقعات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
مبصرین یہ کہتے آرہے ہیں کہ دوطرفہ تناؤ نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی مضر ہے اور جتنا جلدی ممکن ہو اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عالمی برادری کو مصالحت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
امریکہ بھی یہ کہتا آرہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو کشیدگی میں کمی کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
جمعرات کو ہی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے معمول کی بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک دوسرے کے سفارتی عہدیداروں سے متعلق کیے گئے فیصلے سے امریکہ آگاہ ہے۔ ان کے بقول یہ دونوں خودمختار ملکوں کے اپنے فیصلے ہیں جس میں امریکہ مداخلت نہیں کر سکتا ہے۔
ان کے بقول دونوں ملکوں کو اپنے معاملات خود حل کرنے کی ضرورت ہے اور امریکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔