جنگی طیارے مار گرائے جانے کے مسئلے پر روس اور ترکی کے درمیان تناؤ میں کمی نہیں آئی؛ اور ترکی نے ایک بار پھر روس سے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترکی کے صدر طیب اردون نے نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک طیارہ مار گرانے کے مسئلے پر روس سے کسی صورت معافی نہیں مانگے گا، بلکہ اگر کسی کو معافی مانگنے کی ضرورت ہے تو وہ روس ہے، جس نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ بقول اُن کے، ’انہی کو معافی مانگنی چاہئیے‘۔
ترکی کے صدر طیب اردوان کا یہ مؤوقف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روسی صدر ولادی میر پوتن نے طیارہ مار گرانے کو ایک اتحادی کی جانب سے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ادھر، صدر پوتن نے ایک بار پھر اصرار کیا ہے کہ روسی طیارہ شام کی فضائی حدود میں تھا، جب اسے مار گرایا گیا اور کہا کہ یہ واقعہ بین الااقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور سمجھ نہ آنے والا واقعہ ہے۔
روسی صدر کا کہنا تھا کہ انھیں ترکی سے اعلیٰ سطح پر کوئی جامع معافی نامہ موصول نہیں ہوا نہ ہی نقصان کے ازالے کے لئے معاوضہ ادا کرنے کی بات ہوئی اور نہ ہی اس جرم کے ذمہ دار کو سزا دینے کی بات کی گئی۔ اور یہ تاثر ہے کہ ترک حکومت جان بوجھ کر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بند گلی کی طرف لے جا رہی ہے۔
طیارہ مار گرائے جانے کے فوری بعد روسی صدر نے واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک اتحادی کی جانب سے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
قبل ازیں، ترکی نے اس روسی الزام کی سختی سے تردید کردی تھی کہ وہ داعش کے گروپ سے تیل اور گیس خریدتا رہا ہے، جبکہ روس نے ترکی سے خوراک کی درآمد پر پابندی سخت کرنے کا اعلان کیا۔
انقرہ میں مقامی حکام سے بات چیت کرتے ہوئے، ترکی کے صدر کا کہنا تھا کہ اسلامی جہادیوں کے خلاف ان کے ملک کی جنگ غیر متنازع ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ جو لوگ دہشت گردوں سے تیل خریدنے کا الزام عائد کر رہے ہیں اُنھیں ثبوت پیش کرنا چاہئیے۔
طیب اردوان نے دولت اسلامیہ کا عربی نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے خلاف ابتداء ہی سے ہمارا مؤقف واضح ہے۔ یہاں کوئی سوالیہ نشان نہیں اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ داعش کے خلاف ہمارے جنگ کو متنازع بنائے۔
انھوں نے کہا کہ ترکی اپنی سرحدوں سے تیل کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے بھی اقدامات کر رہا ہے، جو کہ جنگجوؤں کی آمدن کا کلیدی ذریعہ ہے۔