2001ء کی دھشت گرد ی کے بعد سےپاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے عالمی توجہ کا خاص مرکز بنے ہوئے ہیں اورگذشتہ نو سال سے انتہاپسندی پر قابو پانے کی عالمی کوششوں کے باوجود صورت حال میں کوئی نمایاں بہتری دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ امریکہ سمیت مغربی دنیا میں یہ اس خدشے کا اظہار کیا جارہاہے کہ اگر دہشت گردوں کا صفایا نہ کیا گیا تو دنیا میں کہیں نہ کہیں 11 ستمبر جیسا کوئی اور واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی مؤثر حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے ، اور ماہرین اس سلسلے میں کیا رائے رکھتے ہیں، آئیے جائزہ لیتے ہیں ۔
پاکستان گزشتہ آٹھ سال سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جاری حکمت عملی میں امریکہ کے اہم اتحادی کا کردار ادا کر رہا ہے مگر بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جڑیں کمزور ہونے کی بجاے مزید مضبوط ہو تی جا رہی ہیں ۔ برائن فش مین واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک نیو امریکہ فاؤنڈیشن میں دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو قبائلی علاقوں خاص طور پر شمالی وزیرستان میں مکمل کنٹرول قائم کرنے کی ضرورت ہے، جہاں دہشت گرد زیادہ سرگرم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے جنوبی وزیرستان ، سوات اور دیگر علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پہ کارراوائی کی ہے مگر شمالی وزیرستان میں دہشت گرد ابھی بھی طاقت ور ہیں اور میرے خیال میں یہ خطرناک ہے۔کیونکہ القاعدہ وہاں سے اپنی کارراوائیاں کرنے میں مصروف ہے۔اسکے علاوہ حقانی نیٹ ورک وہاں سے کارراوائیاں کر تا ہے اور کچھ دیگر پاکستان مخالف گروپ بھی وہاں موجود ہیں۔
فش مین کہتے ہیں کہ امریکہ کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان کو ضروری سازوسامان، اخلاقی حمایت اور سرمایہ مہیا کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہئے ۔ مگر اس کام میں احتیاط کی ضرورت ہے،کیونکہ پاکستان کے اقدامات ابھی تک ناکافی ثابت ہو ئے ہیں ۔تاہم اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے بارے میں واضح طورپر یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت کی رٹ چیلنج کرنے کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی بھی یہ واضح کر چکےہیں کہ جب تک ان علاقوں میں، جہاں اس وقت فوجی کارراوائیاں جاری ہیں ، حالات میں بہتری آنے تک کوئی بھی نیا آپریشن شروع نہیں کیا جاے گا۔
امتیاز گل پاکستان میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹدیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرہیں ۔ وہ اپنی کتاب میں پاکستان کے قبائلی علاقوں کو سب سے خطرناک جگہ قرار دے چکے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن بڑی حد تک کامیاب ثابت ہورے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان ، سوات ،مالاکنڈ اور دیگرعلاقوں سے تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کے جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے اوران سرگرمیوں میں ملوث افراد اپنے گھروں کو واپس جانا شروع ہو گئے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی اپریشن کامیاب رہے ہیں۔لیکن دیرپا کامیابی اس وقت ہوتی ہے جب سول اور فوجی قیادتیں مل کر علاقے کی بحالی اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے مل کر کام کر سکیں۔
پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسداد دہشتگردی کی حکمت عملی کا مقصد محض فوجی آپریشن کرنا، ڈرون حملے کرنا اور دہشتگردوں کا خاتمہ نہیں ہونا چاہے۔ بلکہ قبائلی علاقوں میں تعلیم کی شرح میں اضافہ کیا جائے اور ترقیاتی کام شروع کرنے چاہیے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کسی ایک علاقے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشتگردی کے علاوہ بھی دیگر چیلنجز درپیش ہیں جن میں توانائی کا بحران، اقتصادی اور معاشی بدحالی، کم شرح خواندگی اوربےروزگاری شامل ہیں۔ اور ان سے نمٹنے کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ دہشت گردی پر قابو پانے کی ۔