واشنگٹن —
محکمہٴخارجہ کی طرف سے تیار کردہ سال 2012کی دہشت گردی سے متعلق سالانہ رپورٹ جمعرات کے روز، مروجہ قوائد و ضوابط کے مطابق، امریکی کانگریس کو پیش کردی گئی۔
رپورٹ میں یکم جنوری سے 31دسمبر 2012ء کے دوران بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات اور رجحانات پر ایک تجزیہ پیش کرنے کے علاوہ دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی حکومتوں، دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہوں اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی تفاصیل پیش کی گئی ہیں۔
سال 2012کی سالانہ رپورٹ میں شامل اعداد و شمار کےحوالہ جات پہلی بار یونیورسٹی آف میری لینڈ میں’نیشنل کنسورشیم فور اسٹڈی آف ٹررزم اینڈ ریسپانسز ٹو ٹررزم‘ میں تیار کیے گئے تھے۔ اِس کے باعث، اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے طور طریقےاُس سے مسابقت نہیں رکھتےجنھیں ماضی میں ’نیشنل کاؤنٹر ٹررزم سینٹر‘ ترتیب دیا کرتا تھا۔
سال 2012کی اس رپورٹ میں جن معاملات کی نشاندہی کی گئی تھی اُن میں سے چیدہ چیدہ حقائق درج ذیل ہیں:
اِسی سال، ایران دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کے زمرے میں نمایاں رہا، جس میں پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس؛ ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سلامتی اور ایران کے اتحادی حزب اللہ کی کارستانیاں توجہ طلب تھیں۔
اُسی سال، ایران اور حزب اللہ کی دہشت گرد تنظیم کی کارروائیاں 1990کی دہائی کے بعد کی بلند ترین سطح پر تھیں، جن میں جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور افریقہ میں حملوں کی سازش تیار کرنا شامل تھا۔ ایران اور حزب اللہ نے اسد حکومت کو ایک وسیع تر حمایت فراہم کرنا جاری رکھی، جو شام کے عوام کے خلاف تشدد کی سفاکانہ کارروائیاں جاری رکھیں۔
اُدھر پاکستان میں القاعدہ کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی لیڈرشپ کی ہلاکتوں کے نتیجے میں اُس کی براہ راست کارروائیوں کی استعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی، ایسے میں جب اُس کے سرغنے زیادہ تر اپنی جان بچانے کی فکر میں رہے۔
پھر، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ظہور پذیر ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات نے انسداد دہشت گردی کے منظر نامے کو مزید پیچیدہ بنا کر رکھ دیا۔ القاعدہ کی قیادت شکست کی راہ کی طرف چلتی رہی اور اُس سے منسلک دو خطرناک ترین تنظیموں کی کمر توڑ دی گئی۔ مسلح مقامی باشندوں کی مدد سے یمن کے جنوبی علاقے میں حکومت کا کنٹرول دوبارہ بحال کیا گیا، جس پر 2011ء میں قبضہ کرلیا گیا تھا۔
اِسی طرح، صومالیہ کی قومی افواج اور صومالیہ کے افریقی یونین کے مشن نے ’الشباب‘ دہشت گرد تنظیم کو جنوبی صومالیہ کے اہم شہروں سے نکال باہر کیا۔
تاہم، اِن کامیابیوں کے باوجود، علاقے میں رونما ہونے والے تازہ ترین واقعات نے انسداد دہشت گردی کے منظرنامے کو بہت ہی پیچیدہ بنا دیا۔ لیبیا کے انقلاب کے تناظر میں اسلحے کے انبار بکھر گئے، اور طوراق کے باغیوں کو، اور مالی میں تختہ الٹنے کے بعد دہشت گردوں کو نئے مواقع میسر آئے۔
تاہم، فرانس اور افریقی ممالک کی طرف سے کی گئی کارروائی کے نتیجے میں اور مختصر مدت کے لیے مالی میں افریقی قیادت والے ’بین الاقوامی حمایتی مشن‘ کو حاصل ہونے والی امریکی اعانت کے نتیجے میں؛ اور پھر، سہارا میں ’انسداد دہشت گردی سے متعلق ساجھے داری‘ کو طویل مدت تک ملنے والی امریکی حمایت کے نتیجے میں دہشت گردی کے خطرے میں کمی واقع ہوئی، اور اِس طرح، خطرے کا انسداد ممکن ہوا۔
لیکن، یہ کہ قیادت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث القاعدہ کی ذیلی شاخیں مزید خود سر ہوگئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کی ذیلی شاخیں اپنی اہداف تیار کرنے لگیں اور اپنے طور پر نشانوں کا تعین کرنے لگیں۔
ایسے میں جب رقوم کا حاصل کرنا اور فنڈز کی فراہمی کا معاملہ زیادہ مشکل ہو گیا، متعدد ذیلی شاخیں مالی طور پر آزاد ہوگئی ہیں، جس کے بعد وہ اغوا برائے تاوان اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کی طرف دھیان مرکوز کرنے لگیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردی کی مرکزیت میں دراڑیں پڑنے کے بعد، یہ خطرہ جغرافیائی طور پر بڑے علاقے میں پھیل گیا ہے۔
رپورٹ میں یکم جنوری سے 31دسمبر 2012ء کے دوران بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات اور رجحانات پر ایک تجزیہ پیش کرنے کے علاوہ دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی حکومتوں، دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہوں اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی تفاصیل پیش کی گئی ہیں۔
سال 2012کی سالانہ رپورٹ میں شامل اعداد و شمار کےحوالہ جات پہلی بار یونیورسٹی آف میری لینڈ میں’نیشنل کنسورشیم فور اسٹڈی آف ٹررزم اینڈ ریسپانسز ٹو ٹررزم‘ میں تیار کیے گئے تھے۔ اِس کے باعث، اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے طور طریقےاُس سے مسابقت نہیں رکھتےجنھیں ماضی میں ’نیشنل کاؤنٹر ٹررزم سینٹر‘ ترتیب دیا کرتا تھا۔
سال 2012کی اس رپورٹ میں جن معاملات کی نشاندہی کی گئی تھی اُن میں سے چیدہ چیدہ حقائق درج ذیل ہیں:
اِسی سال، ایران دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کے زمرے میں نمایاں رہا، جس میں پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس؛ ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سلامتی اور ایران کے اتحادی حزب اللہ کی کارستانیاں توجہ طلب تھیں۔
اُسی سال، ایران اور حزب اللہ کی دہشت گرد تنظیم کی کارروائیاں 1990کی دہائی کے بعد کی بلند ترین سطح پر تھیں، جن میں جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور افریقہ میں حملوں کی سازش تیار کرنا شامل تھا۔ ایران اور حزب اللہ نے اسد حکومت کو ایک وسیع تر حمایت فراہم کرنا جاری رکھی، جو شام کے عوام کے خلاف تشدد کی سفاکانہ کارروائیاں جاری رکھیں۔
اُدھر پاکستان میں القاعدہ کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی لیڈرشپ کی ہلاکتوں کے نتیجے میں اُس کی براہ راست کارروائیوں کی استعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی، ایسے میں جب اُس کے سرغنے زیادہ تر اپنی جان بچانے کی فکر میں رہے۔
پھر، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ظہور پذیر ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات نے انسداد دہشت گردی کے منظر نامے کو مزید پیچیدہ بنا کر رکھ دیا۔ القاعدہ کی قیادت شکست کی راہ کی طرف چلتی رہی اور اُس سے منسلک دو خطرناک ترین تنظیموں کی کمر توڑ دی گئی۔ مسلح مقامی باشندوں کی مدد سے یمن کے جنوبی علاقے میں حکومت کا کنٹرول دوبارہ بحال کیا گیا، جس پر 2011ء میں قبضہ کرلیا گیا تھا۔
اِسی طرح، صومالیہ کی قومی افواج اور صومالیہ کے افریقی یونین کے مشن نے ’الشباب‘ دہشت گرد تنظیم کو جنوبی صومالیہ کے اہم شہروں سے نکال باہر کیا۔
تاہم، اِن کامیابیوں کے باوجود، علاقے میں رونما ہونے والے تازہ ترین واقعات نے انسداد دہشت گردی کے منظرنامے کو بہت ہی پیچیدہ بنا دیا۔ لیبیا کے انقلاب کے تناظر میں اسلحے کے انبار بکھر گئے، اور طوراق کے باغیوں کو، اور مالی میں تختہ الٹنے کے بعد دہشت گردوں کو نئے مواقع میسر آئے۔
تاہم، فرانس اور افریقی ممالک کی طرف سے کی گئی کارروائی کے نتیجے میں اور مختصر مدت کے لیے مالی میں افریقی قیادت والے ’بین الاقوامی حمایتی مشن‘ کو حاصل ہونے والی امریکی اعانت کے نتیجے میں؛ اور پھر، سہارا میں ’انسداد دہشت گردی سے متعلق ساجھے داری‘ کو طویل مدت تک ملنے والی امریکی حمایت کے نتیجے میں دہشت گردی کے خطرے میں کمی واقع ہوئی، اور اِس طرح، خطرے کا انسداد ممکن ہوا۔
لیکن، یہ کہ قیادت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث القاعدہ کی ذیلی شاخیں مزید خود سر ہوگئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کی ذیلی شاخیں اپنی اہداف تیار کرنے لگیں اور اپنے طور پر نشانوں کا تعین کرنے لگیں۔
ایسے میں جب رقوم کا حاصل کرنا اور فنڈز کی فراہمی کا معاملہ زیادہ مشکل ہو گیا، متعدد ذیلی شاخیں مالی طور پر آزاد ہوگئی ہیں، جس کے بعد وہ اغوا برائے تاوان اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کی طرف دھیان مرکوز کرنے لگیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردی کی مرکزیت میں دراڑیں پڑنے کے بعد، یہ خطرہ جغرافیائی طور پر بڑے علاقے میں پھیل گیا ہے۔