تھائی لینڈ میں ایک عدالت نے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں پانچ افراد کے ہلا ک ہونے کے ایک دن بعد حکومت کو خبردار کیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرے۔
لیکن عدالت نے بدھ کو رواں سال جنوری میں 60 دن کے لئے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے سرکاری حکم نامے کو غیر قانونی قرار دینے کے حزب اختلاف کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔
حکومت نے ہنگامی حالت کے حکم نامے کو مظاہروں کے سرکردہ راہنماوں کو گرفتار کرنے اور مظاہرین کےکچھ کیمپوں کو منتشر کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔
منگل کو مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ادھر حکومت مخالف مظالرین وزیراعظم ینگ لک شیناواترا کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سکیورٹی اہلکار بدھ کو احتجاج کرنے والوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں جبکہ مظاہرین دارالحکومت بنکاک میں وزیراعظم کے عارضی دفتر کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔
مظاہرین کے رہنما سیتھپ تھاؤگوسوبان اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ینگ لک پر دباؤ برقرار رکھا جائے گا کیونکہ ان کے بقول وزیراعظم ’’زیادتیوں اور غیر ضروری تشدد‘‘ کی ذمہ دار ہیں۔
’’کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ینگ لک کہاں جاتی ہیں، ہم وہاں جائیں گے اور ہم ہر روز ان سے لڑیں گے۔ یہ تب تک جاری رہے گا جب تک وہ اس ملک میں نا رہ سکیں۔ وہ قاتل ہیں۔‘‘
منگل کو پولیس کی طرف سے مظاہرین کو گورنمنٹ ہاؤس کے قریب سے ہٹانے کے دوران تصادم میں تین مظاہرین اور ایک پولیس اہلکار ہلاک اور 60 افراد زخمی ہوئے تھے۔
دونوں طرف سے اسلحہ کا استعمال ہوا اور امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایک محقق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے پاس ایم۔79 گرنیڈ لانچرز تھے جو انہوں نے پولیس کے خلاف استعمال کیے۔
حال ہی میں تھائی لینڈ کی قومی کمیٹی برائے انسداد بدعنوانی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ینگ لک کے خلاف الزامات عائد کرے گی۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اس بات کا علم تھا کہ کسانوں سے متعلق ایک منصوبے میں لاکھوں ڈالرز کی بدعنوانی ہوئی مگر انہوں نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔
ینگ لک کو آئندہ ہفتے ان الزامات کا جواب دینے کے لیے طلب کر رکھا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے دیہاتی آبادی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس منصوبے کو مکمل کرنے پر زور دیا تھا۔
لیکن عدالت نے بدھ کو رواں سال جنوری میں 60 دن کے لئے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے سرکاری حکم نامے کو غیر قانونی قرار دینے کے حزب اختلاف کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔
حکومت نے ہنگامی حالت کے حکم نامے کو مظاہروں کے سرکردہ راہنماوں کو گرفتار کرنے اور مظاہرین کےکچھ کیمپوں کو منتشر کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔
منگل کو مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ادھر حکومت مخالف مظالرین وزیراعظم ینگ لک شیناواترا کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سکیورٹی اہلکار بدھ کو احتجاج کرنے والوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں جبکہ مظاہرین دارالحکومت بنکاک میں وزیراعظم کے عارضی دفتر کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔
مظاہرین کے رہنما سیتھپ تھاؤگوسوبان اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ینگ لک پر دباؤ برقرار رکھا جائے گا کیونکہ ان کے بقول وزیراعظم ’’زیادتیوں اور غیر ضروری تشدد‘‘ کی ذمہ دار ہیں۔
’’کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ینگ لک کہاں جاتی ہیں، ہم وہاں جائیں گے اور ہم ہر روز ان سے لڑیں گے۔ یہ تب تک جاری رہے گا جب تک وہ اس ملک میں نا رہ سکیں۔ وہ قاتل ہیں۔‘‘
منگل کو پولیس کی طرف سے مظاہرین کو گورنمنٹ ہاؤس کے قریب سے ہٹانے کے دوران تصادم میں تین مظاہرین اور ایک پولیس اہلکار ہلاک اور 60 افراد زخمی ہوئے تھے۔
دونوں طرف سے اسلحہ کا استعمال ہوا اور امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایک محقق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے پاس ایم۔79 گرنیڈ لانچرز تھے جو انہوں نے پولیس کے خلاف استعمال کیے۔
حال ہی میں تھائی لینڈ کی قومی کمیٹی برائے انسداد بدعنوانی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ینگ لک کے خلاف الزامات عائد کرے گی۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اس بات کا علم تھا کہ کسانوں سے متعلق ایک منصوبے میں لاکھوں ڈالرز کی بدعنوانی ہوئی مگر انہوں نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔
ینگ لک کو آئندہ ہفتے ان الزامات کا جواب دینے کے لیے طلب کر رکھا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے دیہاتی آبادی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس منصوبے کو مکمل کرنے پر زور دیا تھا۔